سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
Appearance
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |