سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا
Appearance
سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا
ہر نہال اس شرم سیں جنگل کا پالا ہو گیا
آوتا ہے یہ بہا ہو آنکھ سیں دامن تلک
طفل اشک اس آج کل میں کیا جوالا ہو گیا
جب سیں اس الماس کی پہنچی کا ہے آنسو میں عکس
تب سیں ہر تار فلک ہیروں کا مالا ہو گیا
دل جگر کی پھکڑیاں آہوں کے تاروں میں پرو
بیٹھ کر دوکان غم پر پھول والا ہو گیا
اشک باراں آہ بجلی اشک کی کالی گھٹا
ماہ رو بن کس طرح کا برشگالا ہو گیا
باغ میں سرما تھا اور تھی یاد دل دار دو رنگ
مجھ کوں ہر برگ گل رعنا دوشالا ہو گیا
نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں
یا اندھارا اس قدر تھا یا اجالا ہو گیا
ہجر کی مٹھ میں تصور اس غزالی چشم کا
عشق کے بیراگیوں کو مرگ چھالا ہو گیا
بھر رہا ہے بس کہ دود آہ میرا اے سراجؔ
آسماں جیوں پردۂ فانوس کالا ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |