سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا
by سراج اورنگ آبادی

سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا
ہر نہال اس شرم سیں جنگل کا پالا ہو گیا

آوتا ہے یہ بہا ہو آنکھ سیں دامن تلک
طفل اشک اس آج کل میں کیا جوالا ہو گیا

جب سیں اس الماس کی پہنچی کا ہے آنسو میں عکس
تب سیں ہر تار فلک ہیروں کا مالا ہو گیا

دل جگر کی پھکڑیاں آہوں کے تاروں میں پرو
بیٹھ کر دوکان غم پر پھول والا ہو گیا

اشک باراں آہ بجلی اشک کی کالی گھٹا
ماہ رو بن کس طرح کا برشگالا ہو گیا

باغ میں سرما تھا اور تھی یاد دل دار دو رنگ
مجھ کوں ہر برگ گل رعنا دوشالا ہو گیا

نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں
یا اندھارا اس قدر تھا یا اجالا ہو گیا

ہجر کی مٹھ میں تصور اس غزالی چشم کا
عشق کے بیراگیوں کو مرگ چھالا ہو گیا

بھر رہا ہے بس کہ دود آہ میرا اے سراجؔ
آسماں جیوں پردۂ فانوس کالا ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse