سرو میں رنگ ہے کچھ کچھ تری زیبائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرو میں رنگ ہے کچھ کچھ تری زیبائی کا
by امداد علی بحر

سرو میں رنگ ہے کچھ کچھ تری زیبائی کا
جامۂ گل میں ہے چھاپہ تری رعنائی کا

پاؤں سے راز کھلا بادیہ پیمائی کا
جو پھپھولا تھا ڈھنڈھورا ہوا رسوائی کا

ساتھ آیا کوئی میری نہ کوئی جائے گا ساتھ
مورد لطف ازل سے ہوں میں تنہائی کا

زلف کی ایک ہی جھٹکے میں کلیجہ پھڑکا
بہت ایوب کو دعویٰ تھا شکیبائی کا

چار دن اور جوانی کے گزر جانے دو
حال پوچھیں گے جوانوں سے توانائی کا

جوش میں کوئی نہیں جامہ دری کا مانع
ہتھکڑی ہاتھ پکڑتی نہیں سودائی کا

حال قابیل کا ہابیل سے پوچھے کوئی
وہ زمانہ ہے کہ بھائی ہے عدو بھائی کا

لشکر غم کی چڑھائی ہے خبردار اے دل
مورچہ ٹوٹنے پائی نہ شکیبائی کا

کیوں نہ پلکیں ہوں جفا کار جو آفت ہوں بھویں
بل ہے تیروں کو کمانوں کی توانائی کا

کوئی سجدہ تری درگاہ کی قابل نہ ہوا
لے چلا داغ جبیں پر میں جبیں جائی کا

اف نہیں کرتے ہیں عشاق ستم سہتے ہیں
کیا ہی دلبر کو سلیقہ ہے دل آرائی کا

یار کی حسن جوانی کا میں دیوانہ ہوں
خط رخسار ہے محضر مری رسوائی کا

مثل نے سینے میں پڑ جائیں گے چھید اے بلبل
نہ اڑا طرز مرے زمزمہ پیرائی کا

عکس آئینے میں صورت کا پتا دیتا ہے
کھل گیا حال دوئی سے تری یکتائی کا

اپنے ہستی کو سمجھتا رہے برباد انسان
چار عنصر نہیں جھونکا ہے یہ چوپائی کا

برق گریہ ہے شب و روز بتوں کے غم میں
بحرؔ تیرا ہے جنم مردم دریائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse