سرو قد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرو قد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیا
by آغا اکبرآبادی

سرو قد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیا
پھر بہار آئی مجھے لطف چمن یاد آیا

گو کہ تھی سلطنت مصر مگر آخر کار
اس حکومت پہ بھی یوسف کو وطن یاد آیا

رگ گل پر ہے کبھی اور کبھی غنچہ پہ نگاہ
باغ میں کس کی کمر کس کا دہن یاد آیا

سفر ملک عدم کی ہوئی ایسی عجلت
زاد رہ کچھ نہ بجز گور و کفن یاد آیا

صحبت لالہ رخاں عہد شباب و شب وصل
مئے کہنہ جو ملی داغ کہن یاد آیا

جب سے آیا ہے نظر یہ ترا حسن بے داغ
کبک کو ماہ نہ بلبل کو چمن یاد آیا

تیرے سودائی کو پھر جوش ہوا وحشت کا
قیدیٔ زلف کو پھر طوق و رسن یاد آیا

پان کھا کر جو اگال آپ نے تھوکا صاحب
جوہری محو ہوے لعل یمن یاد آیا

بعد مدت کے طلب آپ نے بندہ کو کیا
شکر صد شکر میں اے مشفق من یاد آیا

فصل گل آتے ہی آغاؔ نے بھی وحشت کی لی
کیسی یہ چال چلا کس کا چلن یاد آیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.