سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ
by وحشت کلکتوی

سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ
ہوا وہ بزم مے میں بے حجاب آہستہ آہستہ

رخ روشن سے یوں اٹھی نقاب آہستہ آہستہ
کہ جیسے ہو طلوع آفتاب آہستہ آہستہ

کیا جب شوق نے اس سے خطاب آہستہ آہستہ
حیا نے بھی دیا آخر جواب آہستہ آہستہ

وہ مستی خیز نظریں رفتہ رفتہ لے اڑیں مجھ کو
کیا کاشانۂ دل کو خراب آہستہ آہستہ

بڑھا ہنگامۂ شوق اس قدر بزم حریفاں میں
کہ رخصت ہو گیا اس کا حجاب آہستہ آہستہ

کیا کامل ہمیں اک عمر میں سوز محبت نے
ہوئے ہم آتش غم سے کباب آہستہ آہستہ

عبث تھا ضبط کا دعویٰ ستم اس کے ستم نکلے
نگاہیں ہو گئیں آخر پر آب آہستہ آہستہ

دبستان وفا میں عمر بھر کی صفحہ گردانی
سمجھ میں آئی الفت کی کتاب آہستہ آہستہ

بقدر شوق اسے تاب طپیدہ تھی کہاں قاتل
کیا بسمل نے تیرے اضطراب آہستہ آہستہ

بلا ہیں شاہدان شہر وحشتؔ مے پرستی میں
ہوا میں ان کی صحبت میں خراب آہستہ آہستہ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse