سرمہ جو زیب چشم سیہ فام ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرمہ جو زیب چشم سیہ فام ہو گیا
by شاہ اکبر داناپوری

سرمہ جو زیب چشم سیہ فام ہو گیا
فتنہ سوار ابلق ایام ہو گیا

پیمانے کے طواف میں ہے میکشوں کی آنکھ
تار نگاہ ان کا خط جام ہو گیا

آیا جو سیر کو لب ساحل وہ بادہ نوش
دریا میں جو حباب اٹھا جام ہو گیا

اے دل فراق یار میں مرنا ہے زندگی
جانباز عاشقوں میں ترا نام ہو گیا

ٹکڑے دل و جگر کے اڑانے سے فائدہ
اے تیغ ناز اب تو مرا کام ہو گیا

زلفوں کی یاد میں نظر آیا جو روئے یار
تھا کفر کا خیال پر اسلام ہو گیا

اس زلف کے خیال نے افسردہ دل کیا
ٹھنڈا چراغ عمر سر شام ہو گیا

ملتے نہیں وہ ہم سے اب اتنے ضعیف ہیں
لبریز عمر خضر کا بھی جام ہو گیا

طاقت بدن میں آ گئی چہرہ بحال ہے
تشریف لائے آپ کہ آرام ہو گیا

تو شام کو جو آیا ٹہلنے کے واسطے
سرتاج کوہ طور ترا بام ہو گیا

سرمے سے اڑ چلا تری آنکھوں کا حسن اور
کیا تیز گام ابلق ایام ہو گیا

ہم ابتدائے عشق ہی میں ہو گئے تمام
آغاز جس کو سمجھے تھے انجام ہو گیا

خلعت دیا جو زخموں کا قاتل کی تیغ نے
نام آوری کا خوب سرانجام ہو گیا

کہتا ہے طعن سے تو ہمیں بندۂ خدا
اتنا مزاج او بت خود کام ہو گیا

قاصد نے بے دھڑک جو سنایا جواب شوق
پیغام یار موت کا پیغام ہو گیا

پھیلا یہ سحر چشم فسوں ساز یار کا
پٹنہ ہمارا خطۂ آشام ہو گیا

قسمت میں پختگی جو نہ روز ازل سے تھی
جو پھل ہمیں ملا ثمر خام ہو گیا

اس رشک گل نے دیکھتے ہی صید کر لیا
تار نگاہ ناز مجھے دام ہو گیا

اب ذکر بھی ہمارا تمہیں ناگوار ہے
ایسا ذلیل عاشق ناکام ہو گیا

حاصل ہوئی ہے یہ برکت نعت پاک سے
اکبرؔ ترا بھی شاہ سخن نام ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse