سرمہ جو زیب چشم سیہ فام ہو گیا
سرمہ جو زیب چشم سیہ فام ہو گیا
فتنہ سوار ابلق ایام ہو گیا
پیمانے کے طواف میں ہے میکشوں کی آنکھ
تار نگاہ ان کا خط جام ہو گیا
آیا جو سیر کو لب ساحل وہ بادہ نوش
دریا میں جو حباب اٹھا جام ہو گیا
اے دل فراق یار میں مرنا ہے زندگی
جانباز عاشقوں میں ترا نام ہو گیا
ٹکڑے دل و جگر کے اڑانے سے فائدہ
اے تیغ ناز اب تو مرا کام ہو گیا
زلفوں کی یاد میں نظر آیا جو روئے یار
تھا کفر کا خیال پر اسلام ہو گیا
اس زلف کے خیال نے افسردہ دل کیا
ٹھنڈا چراغ عمر سر شام ہو گیا
ملتے نہیں وہ ہم سے اب اتنے ضعیف ہیں
لبریز عمر خضر کا بھی جام ہو گیا
طاقت بدن میں آ گئی چہرہ بحال ہے
تشریف لائے آپ کہ آرام ہو گیا
تو شام کو جو آیا ٹہلنے کے واسطے
سرتاج کوہ طور ترا بام ہو گیا
سرمے سے اڑ چلا تری آنکھوں کا حسن اور
کیا تیز گام ابلق ایام ہو گیا
ہم ابتدائے عشق ہی میں ہو گئے تمام
آغاز جس کو سمجھے تھے انجام ہو گیا
خلعت دیا جو زخموں کا قاتل کی تیغ نے
نام آوری کا خوب سرانجام ہو گیا
کہتا ہے طعن سے تو ہمیں بندۂ خدا
اتنا مزاج او بت خود کام ہو گیا
قاصد نے بے دھڑک جو سنایا جواب شوق
پیغام یار موت کا پیغام ہو گیا
پھیلا یہ سحر چشم فسوں ساز یار کا
پٹنہ ہمارا خطۂ آشام ہو گیا
قسمت میں پختگی جو نہ روز ازل سے تھی
جو پھل ہمیں ملا ثمر خام ہو گیا
اس رشک گل نے دیکھتے ہی صید کر لیا
تار نگاہ ناز مجھے دام ہو گیا
اب ذکر بھی ہمارا تمہیں ناگوار ہے
ایسا ذلیل عاشق ناکام ہو گیا
حاصل ہوئی ہے یہ برکت نعت پاک سے
اکبرؔ ترا بھی شاہ سخن نام ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |