سرمایہ داری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرمایہ داری
by مجاز لکھنوی

کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے
بتاؤں کیا تمہیں کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے
یہ وہ آندھی ہے جس کی رو میں مفلس کا نشیمن ہے
یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں ہر دہقاں کا خرمن ہے
یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوس لیتی ہے
مگر مزدور کے تن سے لہو تک چوس لیتی ہے
یہ انسانی بلا خود خون انسانی کی گاہک ہے
وبا سے بڑھ کے مہلک موت سے بڑھ کر بھیانک ہے
نہ دیکھے ہیں برے اس نے نہ پرکھے ہیں بھلے اس نے
شکنجوں میں جکڑ کر گھونٹ ڈالے ہیں گلے اس نے
بلائے بے اماں ہے طور ہی اس کے نرالے ہیں
کہ اس نے غیظ میں اجڑے ہوئے گھر پھونک ڈالے ہیں
قیامت اس کے غمزے جان لیوا ہیں ستم اس کے
ہمیشہ سینۂ مفلس پہ پڑتے ہیں قدم اس کے
کہیں یہ خوں سے فرد مال و زر تحریر کرتی ہے
کہیں یہ ہڈیاں چن کر محل تعمیر کرتی ہے
غریبوں کا مقدس خون پی پی کر بہکتی ہے
محل میں ناچتی ہے رقص گاہوں میں تھرکتی ہے
بظاہر چند فرعونوں کا دامن بھر دیا اس نے
مگر گل باغ عالم کو جہنم کر دیا اس نے
درندے سر جھکا دیتے ہیں لوہا مان کر اس کا
نظر سفاک تر اس کی نفس مکروہ تر اس کا
جدھر چلتی ہے بربادی کے ساماں ساتھ چلتے ہیں
نحوست ہم سفر ہوتی ہے شیطاں ساتھ چلتے ہیں
یہ اکثر لوٹ کر معصوم انسانوں کو راہوں میں
خدا کے زمزمے گاتی ہے چھپ کر خانقاہوں میں
یہ ڈائن ہے بھری گودوں سے بچے چھین لیتی ہے
یہ غیرت چھین لیتی ہے حمیت چھین لیتی ہے
یہ انسانوں سے انسانوں کی فطرت چھین لیتی ہے
یہ آشوب ہلاکت فتنۂ اسکندر و دارا
زمیں کے دیوتاؤں کی کنیز انجمن آرا
ہمیشہ خون پی کر ہڈیوں کے رتھ میں چلتی ہے
زمانہ چیخ اٹھتا ہے یہ جب پہلو بدلتی ہے
گرجتی گونجتی یہ آج بھی میداں میں آتی ہے
مگر بد مست ہے ہر ہر قدم پر لڑکھڑاتی ہے
مبارک دوستو لبریز ہے اب اس کا پیمانہ
اٹھاؤ آندھیاں کمزور ہے بنیاد کاشانہ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse