سرسری بھی ہے کارگر بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرسری بھی ہے کارگر بھی ہے
by شاہ اکبر داناپوری

سرسری بھی ہے کارگر بھی ہے
یہ کٹاری بھی ہے نظر بھی ہے

کسے تاکا کسے کیا بسمل
او کماندار کچھ خبر بھی ہے

کون کہتا ہے گل نہیں سنتے
آہ بلبل میں کچھ اثر بھی ہے

گو مری داستاں ہے طول بہت
تم سنو تو یہ مختصر بھی ہے

مجمع البرزخین ہے انسان
یہ فرشتہ بھی ہے بشر بھی ہے

نذر ہے جو پسند آئے تمہیں
دل بھی موجود ہے جگر بھی ہے

وار تیری نگہ کا روکے کون
کہیں اس تیغ کی سپر بھی ہے

یہ بھی خدمت میں سر بلند رہے
آئنہ دار اک قمر بھی ہے

ان کے وعدوں کا کچھ یقین نہیں
گفتگو میں اگر مگر بھی ہے

غیر نے تیغ پر گلہ نہ دھرا
کوئی میرا سا بے جگر بھی ہے

غیر کیا معرکے میں آئیں گے
بزدلوں کا یہاں گزر بھی ہے

اٹھو اکبرؔ چلو مدینے کو
اس سے بہتر کوئی سفر بھی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse