سرسراہٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرسراہٹ
by میراجی

یہاں ان سلوٹوں پر ہاتھ رکھ دوں
یہ لہریں ہیں بہی جاتی ہیں اور مجھ کو بہاتی ہیں
یہ موج بادہ ہیں ساغر کی خوابیدہ فضا دل میں
اچانک جاگ اٹھتی ہے
حقیقت کے جہاں سے کوئی اس دنیا میں در آئے
تو اس کے ہونٹ متبسم ہوں شاید قہقہہ اٹھ کر
مرے دل کو جکڑ لے اپنے ہاتھوں سے
مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ لہریں ابھی تک ساحلی منظر سے ناواقف ہیں یوں ہی اک بہانا کر رہی ہیں اک بہانہ کس کو کہتے ہیں

بہانے ہی بہانے ہیں
بڑھا کر رکھ دیا لہروں پہ میں نے ہاتھ مرا ہاتھ اک کشتی کی مانند ایک موج تند
کی افتاد کے جلوے کو مرے سامنے لا کر ہوا ہے گم
یہ سب موج تخیل کی روانی تھی
مگر میں سوچتا ہوں بات جو کہنے کی تھی میں نے نہ کیوں پہلے ہی کہہ دی وقت کا
بے فائدہ مصرف
ہر اک پوشیدہ منظر کو
اگل ڈالے گا اک لمحہ وہ آئے گا
کہ جب اس بات کے سننے پہ سننے والے سوچیں گے
بہانہ کیا تھا سلوٹ کیا تھی موج بادہ بھی کیا تھی
مگر شب کی اندھیری خلوت گمنام کے پردے میں کھو کر ان کو یہ معلوم ہو جائے گا اک پل میں
اور اک لذت کے کیف مختصر میں کھو کے وہ بے ساختہ یہ بات کہہ اٹھیں گے کیا
مجھ کو اجازت ہے
یہاں ان سلوٹوں پر ہاتھ رکھ دوں یہ جھجک کیسی
یہ لہریں ہیں انہیں نسبت ہے کالی رات کے غم ناک دریا سے
جو بہتا ہی چلا جاتا ہے رکتا ہی نہیں پل کو
جسے کچھ بھی غرض اس سے نہیں میں ہاتھ رکھوں یا جھجک اس ہاتھ کو میرے
کلیجے سے لگا دے اور میں سو جاؤں ان لہروں کے بستر میں
کلیجے سے لگا دے اور میں سو جاؤں ان لہروں کے بستر میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse