سرزمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرزمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا
by شاہ نصیر

سرزمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا
اک مسافر تھا سر منزل ٹھکانے لگ گیا

گلشن ہستی نہیں جائے شگفتن اے صبا
دیکھ جو غنچہ گیا یاں کھل ٹھکانے لگ گیا

آبرو رکھ لی خدا نے اس کی ہم چشموں میں آہ
تیغ ابرو کا تری گھائل ٹھکانے لگ گیا

فرصت یک دم پہ پھولا تھا حباب آب جو
تھا جو نقش صفحۂ باطل ٹھکانے لگ گیا

جان شیریں دی ترے عاشق نے بھی جوں کوہ کن
سر سے اپنے مار کر اک سل ٹھکانے لگ گیا

رکھ قدم ہشیار ہو کر عشق کی منزل میں آہ
جو ہوا اس راہ میں غافل ٹھکانے لگ گیا

چھاؤں میں نخل مژہ کی لوٹتا ہے طفل اشک
خاک میں یا رفتہ رفتہ مل ٹھکانے لگ گیا

آشنا کوئی نہ دیکھا غرق بحر عشق کا
ایک دم میں جو تہ ساحل ٹھکانے لگ گیا

بے کلی کیوں کر نہ ہووے اس کی فرقت میں نصیرؔ
عشق میں اس گل بدن کے دل ٹھکانے لگ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse