سرد مہری سے تری دل جو تپاں رکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرد مہری سے تری دل جو تپاں رکھتے ہیں
by اشک رامپوری

سرد مہری سے تری دل جو تپاں رکھتے ہیں
ہمہ تن برف ہیں آہوں میں دھواں رکھتے ہیں

سیل غم آنکھ کے پردے میں نہاں رکھتے ہیں
ناتواں بھی ترے کیا تاب و تواں رکھتے ہیں

فرش رہ کس کے لئے ہم دل و جاں رکھتے ہیں
خوبرو پاؤں زمیں پر ہی کہاں رکھتے ہیں

بات میں بات اسی کی ہے سنو تم جس کی
یوں تو کہنے کو سبھی منہ میں زباں رکھتے ہیں

جب سے دشوار ہوا سانس کا آنا جانا
ہم نگاہوں میں جہان گزراں رکھتے ہیں

کس سے بے دردئ احباب کا شکوہ کیجے
نام بے تابئ دل کا خفقاں رکھتے ہیں

آنکھ کھولی ہے تو صیاد کے گھر کھولی ہے
ہم قفس پر ہی نشیمن کا گماں رکھتے ہیں

پھول بھی منہ سے جھڑیں بات بھی کانٹے کی رہے
یہ ادا اور سخن ساز کہاں رکھتے ہیں

لوگ روتے بھی ہیں تربت میں لٹا کر اے اشکؔ
اور سینے پہ بھی اک سنگ گراں رکھتے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse