سرد آج کل اس درجہ زمانے کی ہوا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرد آج کل اس درجہ زمانے کی ہوا ہے
by محی الدین فوق

سرد آج کل اس درجہ زمانے کی ہوا ہے
انجام کے احساس سے دل کانپ رہا ہے

وہ شکل جو آتے ہی نظر ہو گئی غائب
جادو ہے کہ بجلی کہ چھلاوا کہ بلا ہے

کشمیر جسے کہتے ہیں سب غیرت فردوس
جب تو ہی نہیں ہے پاس تو دوزخ سے سوا ہے

کہسار پر یہ ابر کے پھرتے ہوئے سائے
اک عالم شاداب تجھے ڈھونڈ رہا ہے

گر بادلہ سر پر ہے تو مخمل ہے تہہ پا
القصہ عجب منظر پر زیب و ضیا ہے

آ اور مری چشم تصور میں سما جا
آئینہ ترا دیر سے بے عکس پڑا ہے

اے فوقؔ میں ہوں اس لیے محتاج رفاقت
تنہا رہ منزل میں کوئی چھوڑ گیا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse