سرخ ہو جاتا ہے منہ میری نظر کے بوجھ سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرخ ہو جاتا ہے منہ میری نظر کے بوجھ سے
by رشید لکھنوی

سرخ ہو جاتا ہے منہ میری نظر کے بوجھ سے
کیا بنے گی زیور گلہائے تر کے بوجھ سے

یوں ہوئے ہیں خاک بعد دفن تیرے ناتواں
پس گئے ہیں چادر گلہائے تر کے بوجھ سے

شرم گو کم ہو گئی پر نازکی کو کیا کریں
اب جھکے جاتے ہیں خود اپنی نظر کے کے بوجھ سے

اف ری تیری ناتوانی لاغری اللہ رے ضعف
ایک ہی کروٹ سے ہوں داغ جگر کے بوجھ سے

ہلتے ہیں ابرو ترے بار گل رخسار سے
جس طرح شاخیں لچکتی ہیں ثمر کے بوجھ سے

دل سے آہیں چل چکی ہیں ہو گیا ممکن وصال
اب لبوں تک آ نہیں سکتیں اثر کے بوجھ سے

یاس و حسرت سے یہ بلبل کی گرانباری ہوئی
لاکھ من کا ہے قفس اک مشت پر کے بوجھ سے

جامۂ اصلی بہت کہنہ ہوا ہے اے رشیدؔ
چاک ہو جائے نہ اشک چشم تر کے بوجھ سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse