سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے
by نواب محمد یار خاں امیر

سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے
لہو اترا ہے تری آنکھوں میں خوں خواری سے

وقت رخصت کے ترے اے مرے جی کے دشمن
تھام تھام آج رکھا دل کو میں کس خواری سے

بس میں آیا جو تمہارے اسے چاہو سو کرو
کیا ستم آدمی سہتا نہیں لاچاری سے

کس نے نظروں میں خدا جانے اسے مل ڈالا
نرگس آج آنکھ اٹھاتی نہیں بیماری سے

کیا کہوں ولولۂ شوق کو تیرے میں امیرؔ
گھر میں جاتے ہیں پرائے تو خبرداری سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse