سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے
Appearance
سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے
لہو اترا ہے تری آنکھوں میں خوں خواری سے
وقت رخصت کے ترے اے مرے جی کے دشمن
تھام تھام آج رکھا دل کو میں کس خواری سے
بس میں آیا جو تمہارے اسے چاہو سو کرو
کیا ستم آدمی سہتا نہیں لاچاری سے
کس نے نظروں میں خدا جانے اسے مل ڈالا
نرگس آج آنکھ اٹھاتی نہیں بیماری سے
کیا کہوں ولولۂ شوق کو تیرے میں امیرؔ
گھر میں جاتے ہیں پرائے تو خبرداری سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |