Jump to content

سراغ رساں

From Wikisource
سراغ رساں
by قاضی عبدالغفار
319628سراغ رساںقاضی عبدالغفار

اکتوبر کے مہینے کی ۶ تاریخ تھی اور سال تھا ۱۸۸۵ء۔ ۸۵ نہ ہوگا تو ۸۶ء ہوگا۔ غرض تھے گلابی جاڑے۔ ایک فرد کی سردی تھی، صبح صبح تھانہ میں بھنگی جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور داروغہ جی برآمدہ میں اپنے پلنگ پر آدھے لیٹے آدھے بیٹھے، حقہ پی رہے تھے۔ منہ ان کا ابھی باسی تھا۔ رات کے جمع شدہ چیز ہنوز آنکھوں کے کویوں میں جمع تھے۔

ایک شخص بھاگا ہوا آیا:

’’سلام داروغہ جی! غضب ہوگیا داروغہ جی، غضب ہوگیا سرکار!‘‘

’’ابے غضب کے بچے کچھ کہتا بھی ہے یا خواہ مخواہ چیخے جاتا ہے۔‘‘ داروغہ جی نے چڑ چڑاکر فرمایا۔

’’داروغہ جی بڑا بھاری قتل ہوگیا۔ ہمارے میاں کو کسی نے مار ڈالا۔۔۔ ہائے۔ ہائے!‘‘

’’کون ہے تیرا میاں، ابے کس نے مار ڈالا، صاف صاف سیدھی سیدھی بات کر، ورنہ دوں گا ایک لات!‘‘

’’اجی سرکار! ہمارے میاں خداداد خاں زمیندار پتوکھیڑہ کل شام تو اچھے خاصے تھے، اور اب کمرہ کے دروازہ بند ہے۔ پکارتے پکارتے میں تھک گیا۔ دروازہ پیٹا، آوازیں دیں، گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔‘‘

’’ابے کہرام سے ہمیں کیا کام، مرغی کے، یہ بتا وہ رات گئے کہاں تھے؟‘‘

’’کہیں نہیں سرکار۔۔۔ اب سرکار کو تو معلوم ہی ہے۔ ان کا آنا جانا موہنی طوائف کے یہاں تھا۔ وہیں سے شام کو واپس آئے تھے۔ بس پھر تو کہیں گئے نہیں۔ وہ تو داروغہ جی اچھے خاصے تھے۔ ہائے ہائے۔ یہ کیا ہوگیا۔ ہائے ہائے۔‘‘

’’سن بے حرامزادہ! جو پوچھوں وہ بتا۔ بک بک کرے گا تو ابھی منھ ٹیڑھا کردوں گا۔ ہاں، بتا اب، کس نےقتل کیا ان کو۔۔۔ ٹھیک ٹھیک بتا۔‘‘

’’اےلو! سرکار،بھلا مجھے کیا معلوم؟ یہ تو سرکار آپ ہی معلوم کریں گے۔‘‘

’’کیوں بے! ہم تیرے باپ کے نوکر ہیں۔ ہم معلوم کریں گے اور تو نہ بتائے گا۔ بتا، بول۔۔۔ نہ بتائے گا؟ اٹھوں پھر میں؟‘‘

’’سرکار! اولاد کی قسم مجھے معلوم نہیں۔‘‘

’’اولاد کا جنا! حرامی سالا!۔۔۔ ارے کوئی ہے، ذرا لے تو جاؤ اس اولاد کے جنے کوحوالات میں! ان حرامزادہ کو یہ تو خبر ہے کہ ان کے آقا صاحب قتل کردیے گئے۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ کس نےقتل کیا۔۔۔ ہم سے پوچھتا ہے سالا۔۔۔ ہم ان کو بتائیں۔۔۔ لینامنشی جی! ذرا تھوڑی سی ٹھکنتی تو کرڈالو۔ باز خان کے سپرد کرڈالو۔ وہ اس کا مزاج درست کرلیں گے۔۔۔‘‘

مقتول زمیندار صاحب کے دروازہ پر کانسٹیبل ٹہل رہے ہیں۔ داروغہ جی وردی پہنے پیٹی لگائے محلہ کے لوگوں کے بیانات لے رہے ہیں:

’’ہاں تو مقتول شراب بہت پیتا تھا۔ موہنی طوائف سےاس کا تعلق تھا؟ اور بیوی سے کس بات پر جھگڑا ہوا کرتاتھا؟۔۔۔ بتاؤ جی، صاف صاف کہو۔۔۔ ہاں! تو وہ موہنی کے گھر سےشام کو کس وقت آیا تھا۔ تم نے واپس آتے دیکھا، کوئی سات بجے کے قریب، ٹھیک! پھر تم سے کچھ بات کی تھی؟ بات نہیں کی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے، جھوٹ مت بکو۔ سچ سچ بات کہو۔ شراب پئے ہوا تھا۔ نشہ زیادہ معلوم ہوتاتھا۔ پھر تم سے بات کیوں نہیں ہوئی؟ نشہ کی حالت میں تو ضروربات ہونی چاہیے تھی۔۔۔ جھوٹے ہو تم۔۔۔ بکواس نہ کرو۔۔۔ یہ کیا بھید ہے کہ تم نے اس سے بات نہیں کی۔ اچھا مان لیا کہ اس نے بات نہیں کی۔ مگر تم نے بات کیوں نہ کی؟ تمہیں سانپ سونگھ کیا تھا؟ تمہاری زبان کو دیمک چاٹ گئی تھی؟ کیوں جی؟ نہیں بتاؤگے؟ اچھا مجھے بھی دیکھا ہے ٹیڑھی انگلیوں سے صاف گھی نکال لیتا ہوں۔ ہونہہ! جمعدار ذرا لے جاؤ اس بدمعاش کو حوالات میں۔۔۔ ہم آتے ہیں۔ ابھی۔۔۔

اب داروغہ جی نے موقعہ کا معائنہ شروع کیا:

دوسری منزل پر وہ کمرہ تھا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ باہر کی طرف ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ داروغہ جی نے بہت غور سے اس کودیکھا:

’’اگر کوئی گھر کا آدمی نہیں ہے تو وہ ضرور ادھر سے چڑھ کر داخل ہوا اور ادھر ہی سے نکل گیا۔ ذرا دیکھنا باہر کی دیوار پر کوئی نشان تو نہیں ہے۔‘‘

دیوار پرنشان بہت تھے۔ لمبے، سیدھے، گول ہر قسم کے نشان تھے۔

’’اچھا اب دیوار کے نیچے زمین پر دیکھو۔‘‘ ڈبیا میں سے پان نکال کر کھاتے ہوئے داروغہ جی نے ہدایت فرمائی۔ بارش ہوچکی تھی، نرم زمین پر انسان اور جانور کے قدموں کے سینکڑوں نشانات موجود تھے۔

’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ رات میں ادھر سےآیا۔ ادھر ہی سے آیا۔ ادھر سے نہ آیا تو پھر کدھر سے آیا (داروغہ جی نے حاضرین کی طرف نظر کرکےاس سوال پر زوردیا کہ گویا کسی نےان کی رائے پر اشتباہ ظاہر کیا ہے) بیشک ادھر سے آیا! مگر چڑھا کیسے؟‘‘

’’جی صاحب، چڑھنے کا کیا ہے، چڑھ گیا ہوگا۔ رسی باندھ کر، بانس رکھ کر۔‘‘ ایک محلہ والے نے لقمہ دیا۔۔۔

’’پاگل ہو‘‘ داروغہ جی نے جھڑکا ’’کہیں قیاسات سے سراغ رسانی کی جاتی ہے۔ پکے نشانات اور اشارے ملنے چاہئیں۔ اچھا اب دیکھو یہاں قریب کوئی سیڑھی موجود ہے یا نہیں؟‘‘

’’زمیندار صاحب کے اصطبل میں ایک بانس کی سیڑھی رکھی ہوئی ملی۔‘‘

’’ہاں۔ اب دیکھو بات سمجھ میں آئی۔ کھڑکی کھلی ہوئی، دروازہ اندر سے بند۔ دیوار پر نشان۔ سیڑھی موجود۔ قاتل کاراستہ معلوم ہوگیا!!‘‘ داروغہ جی نے خاص طور پر ان صاحب کی طرف نظر کرکے فرمایا جنہوں نے رسی اور بانس کا ذکر کیا تھا۔

’’کھڑکی کھلی ملی ہوگی۔ قاتل اندر گھس آیا ہوگا۔ بھئی مقتول تو ہمیشہ کے بے فکر تھے ہی۔ ہم تو جانتے تھے۔ کسی دن یہ حشر ہونے والا ہے۔ عیاشی۔ شراب خواری۔ بری صحبت۔‘‘

ناصحانہ انداز میں داروغہ جی نے اپنے شانے ہلاکر افسوس کا اظہار فرمایا۔ ’’کیوں شیخ جی! میں کچھ غلط کہتا ہوں؟ سیدھے سیدھے چلتے تو آج اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوتے۔ اب مرے پڑے ہیں۔ بھائی خدا بچائے!‘‘

’’ہاں صاحب خدا بچائے۔‘‘ محلہ والوں نے آواز میں آواز ملائی۔

’’ارے میاں! ہم سے کیا کہتے ہو۔ ہم تو روز ایسے سینکڑوں تماشے دیکھا کرتے ہیں۔‘‘

کمرہ کے دروازہ میں باہر سے قفل لگاکر مہر کردی گئی۔ کھڑکی کے نیچے ایک کانسٹیبل مقرر کیا گیا اور داروغہ جی محلہ والوں کو سمیٹ کر تھانہ میں آگئے۔ چلتے وقت مقتول کے کسی عزیز نےمقتول کی لاش اور کفن دفن کاکچھ ذکر کیا۔ داروغہ جی پل پڑے ’’ارے میاں، کچھ قتل بھی ہے۔ ابتدائی تحقیقات تو ہولینے دو۔ ابھی تو جناب میں لاش کو ہاتھ بھی نہ لگانے دوں گا۔ ایسی گھبراہٹ کیا ہے۔ آخر کفن دفن تو ہونا ہی ہے۔اب نہیں، دس گھنٹہ بعد سہی۔‘‘

یہ کہہ کر داروغہ جی۔ داروغہ جی کے پیچھے چھ کانسٹیبل۔ کانسٹیبلوں کے پیچھے محلہ والے، محلہ والوں کے پیچھے محلہ کے لونڈے اور محلہ کے لونڈوں کے پیچھے محلہ کے دو تین کتے۔

تحقیقات کی پہلی منزل ختم ہوئی۔

کھانا کھاکر، حقہ پی کر، داروغہ جی نے تھوڑا ساقیلولہ کیا۔ اس کے بعد پھر اپنی جھبے دار پگری سر پر رکھ کر معائنہ موقع فرمانے کی غرض سے نکلے۔ مکان کے چاروں کونوں پر کانسٹیبل کھرے تھے۔ کمرہ کے داروازہ کا تالا داروغہ جی نے خود کھولا۔ آگے آگے وہ۔ اُن کے پیچھے جمعدار صاحب کمرہ میں داخل ہوئے۔

’’دیکھو جمعدار۔ کوئی اندر نہ آنے پائے۔ نوجوان افسران اکثر یہی تو غلطی کرتے ہیں کہ روک ٹوک نہیں کرتے۔ لوگ موقع واردات پر جمع ہوجاتے ہیں اور جرم کے نشانات مٹ جاتے ہیں۔ کسی کو مت آنے دو۔‘‘

یہ حکم دے کر داروغہ جی نے تفتیش کی دوسری منزل میں قدم رکھا۔

کمرہ کی حالت یہ تھی:

دروازہ پر میلے ململ کے پردے۔ فرش پر ایک پرانا قالین۔ ایک کونے میں کھڑکی کے پاس ایک مسہری جن کے پردے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے۔ بستر کی چادر و تکیہ کے غلاف میلے۔ ایک کونے میں جوتوں کے چند جوڑے۔ ان پر گرد جمی ہوئی۔ مسہری کے پاس ایک چھوٹی میز پرایک گلاس اور راکھ دانی۔ فرش پر سگریٹوں کے بہت سےٹکڑے تھے۔

داروغہ نے بہت احتیاط کے ساتھ بستر کی لٹکتی ہوئی چادر کواٹھاکر مسہری کے پیچھے جھانکا۔ وہاں دس بارہ وسکی کی خالی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں اورایک دو ٹوٹے ہوئے گلاس۔ پھر داروغہ جی نے کھڑکی سے جھانکا۔

’’بہت اونچی ہے۔ ضرور سیڑھی لگائی ہوگی۔ دیکھو جمعدار انگلیوں کے نشانات۔ادھر دیکھو۔ ان کیواڑوں پر۔ ان کافوٹو لینا ہوگا اور یہ بوتلیں بھی سب تھانے لے جاؤ اوریہ ٹوٹے ہوئے گلاس بھی اور یہ راکھ دانی بھی اور۔۔۔ یہ تو دیکھو۔ قالین پر یہ دھبہ کیسا ہے؟ ہے تو سرخی مائل۔ تعجب نہیں کہ خون کا دھبہ ہو۔ اس کو بھی لے جاؤ تھانہ۔

’’مگر‘‘ جمعدار نے کہا ’’سرکار مقتول کی لاش کہاں ہے؟‘‘

’’توبہ! عجب گھونگے ہو۔ جو بات آدمی کی سمجھ میں نہ آئے۔ اس کا کہناکیا ضرور ہے۔ پہلے قاتل کا کھوج تو لگاؤ۔ مقتول کی لاش بھی مل جائے گی۔ اور اگر نہ بھی ملے تو بھی قتل تو قتل ہے۔ ابھی تو زندہ پکڑو۔ مردہ تو مردہ ہے اس کی فکر پھر کرلینا۔۔۔ سمجھے؟‘‘

داروغہ جی نے بہت پرمعنی لہجہ میں کہا ’’سمجھے؟‘‘

’’لیکن سرکار!‘‘ بے عقل جمعدار نے پھر کہا ’’اگر قتل اسی کمرہ میں ہوا، تو پھر لاش کہاں گئی؟‘‘

’’اونہہ! کیا کوڑھ مغز ہو، اورے بھائی۔ قتل ہوا۔ یہ تو مانتے ہونا کہ قتل ہوا۔ اچھا اب یہ بھی مان لیا کہ اسی کمرہ میں ہوا، بہتر! اب یہ بتاؤ کہ قاتل کہاں گیا؟ قاتل اگر مل گیا تو مقتول کی لاش کا بھی پتہ مل جائے گا۔ اور وہ نہ ملا تو پھر لاش ملے یا نہ ملے۔ سب یکساں ہے! بھائی میرے! ان باتوں کے سمجھنےکے لیے تجربہ چاہیے، تجربہ!۔۔۔ یاد نہیں۔ پچھلے سال اس سوداگر کا قتل! لاش کو قاتل کہاں سے کہاں لے گئے تھے۔ اب تو جمعدار تم یوں سمجھ لو کہ ارتکابِ جرم تو ہوا۔ لاش نہیں ہے نہ سہی البتہ یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ اگر لاش اس کمرہ میں نہیں تو قاتل ایک آدمی نہ تھا۔ کم از کم دو ہوں گے جو لاش کو اٹھاکر لے گئے۔۔۔ یہ دیکھو یہ کیا ہے تکیہ پر خون کا نشان۔۔۔ اگر تکیہ پر خون کا دھبہ ہے تو سمجھ لو کہ سوتے میں قتل کیا گیا۔ اچھا تو اٹھاؤ یہ تکیہ بھی لو، لے چلو تھانہ کو۔‘‘

’’اس بوٹ کے تسمے کہاں ہیں؟‘’ ایک جوتے کو ٹھوکر مار کر داروغہ جی نے فرمایا۔۔۔ ’’دونوں تسمے نکال لیے گئے ہیں۔۔۔ اس سے کیا پتہ چلتا ہے، کچھ سمجھے جمعدار؟‘‘ پھر جمعدار کے جواب کا انتظار کیے بغیر ’’اگر یہ خون کے دھبے خون کے دھبے نہیں ہیں، تو اغلب یہ ہے کہ جوتوں کے تسموں سے گلاگھونٹا گیا ہے۔۔۔ یہ ذرا دور کی کوڑی۔۔۔‘‘ داروغہ جی مسکرائے! ’’کیوں جمعدار۔۔۔ ہے پتے کی بات؟‘‘

اتنے میں پولیس کے ڈاکٹر صاحب بھی تشریف لے آئے۔ وہ بہت آہستہ آہستہ کمرے میں داخل ہوئے جیسے ٹہلتے ہوئے کلب میں جارہے ہیں۔ ایک اخبار ان کے ہاتھ میں تھا۔

’’ارے میاں داروغہ جی، سنا تم نے؟ سرحد پر جنگ شروع ہوگئی۔ بھئی یہ سرحدی پٹھان بھی بلائے بے درماں ہیں۔اخبار کہتا ہے کہ سرحد کی طرف فوجیں جارہی ہیں۔۔۔ اب پھر چلے گی کچھ روز۔۔۔‘‘

داروغہ جی کو نہ سرحد کی جنگ سے کوئی دلچسپی تھی نہ سرحد کے پٹھانوں سے۔ انہوں نے سنی ان سنی کرکے کہا:

’’ڈاکٹر، دیکھو تو قالین پر یہ خون کا دھبہ ہے نا؟‘‘

ڈاکٹر صاحب نے جیب سے عینک کا خانہ نکالا۔ خانہ میں سے عینک نکالی۔ پھر جیب میں سے رومال نکالا۔ رومال سے عینک کے دونوں شیشے صاف کیے۔ اس کے بعد ناک کی نوک پر عینک کی کمانی رکھ کر قالین کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’دھبہ تو ضرور ہے کچھ سرخی مائل بھی ہے۔ خون ہی ہوگا۔ ممکن ہے خون ہو۔ معلوم تو خون ہی ہوتاہے۔ خون ہے۔ ضرور خونہی ہے۔ سنا تم نے۔ داروغہ۔ یار ہماری چھاؤنی سےبھی فوج جانے والی ہے اور جو کہیں ہم کو بھی حکم مل گیا تو ہوگی بڑی کوفت اور بے لطفی۔‘‘

’’اچھا فرض کرو‘‘ داروغہ جی نے جمعدار کو مخاطب کرکے کہا ’’فرض کرو یہ خون ہے تو پھر گویا یہ ثابت ہوتا ہے کہ مقتول کو دوطرح قتل کیا گیا۔ پہلے چھری یا کسی آلہ دھار وار سے اور پھر دی گئی پھانسی، جوتے کے تسموں سے، یا یوں ہوا کہ پہلے پھانسی دی پھر چھری بھونک دی! اور نہیں تو پھر یا خون کا دھبہ غلط یاجوتے کے تسموں والی بات!‘‘ اس طرح داروغہ جی نے گویا اپنی قطعی رائے ظاہر فرمائی۔

’’اور اگر دونوں باتیں غلط نہ ہوئیں، نہ تسمے، نہ پھانسی،پھر۔۔۔ ارے یار چل بھی یہاں سے۔ بس ہوگئی تفتیش کامل۔ سنتے ہیں کہ گاندھی جی نے اپنے آشرم کا سارا گھرونداتوڑ ڈالا۔ ارے یار۔ یہ تو کچھ عجب آدمی ہے۔ گاندھی۔ بھئی واہ!‘‘

’’افوہ! بکے جاتے ہو‘‘ داروغہ جی جھنجلاگئے۔۔۔ ’’معاملہ کو الجھاؤمت، سلجھاؤ، تفتیش کایہی بنیادی اصول ہے۔‘‘

اپنی اخبار بینی کی داد داروغہ جی سے نہ پاکر ڈاکٹر صاحب نے عینک اتار کر اس کے خانہ میں رکھ لی۔ اور خانہ جیب میں۔ اور یہ فرماتےہوئے چل دیے:

’’اچھا یار شام کو آئیں گے۔ لاش کا پتہ چل جائے تو ہمیں بلا لیجو۔‘‘

’’اس صندوقچی کو دیکھو۔ اس میں کیا ہے؟۔۔۔ گھڑی پرانی معلوم ہوتی ہے۔ ۱۲ روپے، ایک انگشتری، لو تو بس (جمعدار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا) یہ الجھاؤ تو سلجھ گیا۔۔۔ قتل کی غرض چوری نہ تھی۔ مال موجود ہے۔ اب اگر قتل کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے تو دشمنی!‘‘

داروغہ جی نے خالص منطقی استدلال فرمایا ’’یہ بات تو صاف ہے سمجھے جمعدار۔‘‘

جمعدارنے سر ہلاکر اثبات کا اشارہ کیا۔ وہ اکثر اثبات ہی کا اشارہ کرنے کے عادی تھے!!

’’اچھا جی! پتے کی باتیں تو سب معلوم ہوگئیں۔ اب ذرا دماغ پر زور دو۔ قاتل کون ہوسکتاہے؟‘‘ داروغہ جی نے اب دوسرانکتہ حل فرمانے کی کوشش شروع کی۔ جمعدار صاحب نے اپنی عقل کے پانسے پھینکنے شروع کیے:

’’سرکار! مقتول کاکوئی دشمن ہی یقیناً اس کا قاتل ہے۔‘‘ جمعدار صاحب نے گویا یہ ایک بالکل نئی بات ڈھونڈ نکالی۔ پھر انہوں نے دشمنوں کی فہرست پیش کی۔

’’منولال بنئے سے بہت مقدمہ بازی ہو رہی تھی۔ میں نے سنا ہے کہ اپنے نوکر کو بھی۔۔۔ وہی جو اب حوالات میں ہے بہت مارا پیٹا کرتے تھے۔۔۔ کہتے ہیں کہ بیوی سے بھی ان بن رہتی تھی، موہنی طوائف کے معاملہ میں خان بہادر صاحب سےبھی لاگ ڈانٹ تھی۔ اب خدا ہی جانے سرکار، ان میں سے کس نے یہ کارروائی کی!‘‘ جمعدار صاحب گویا امکانات کے پورے میدان پر پھیل گئے!

’’اونہہ۔۔۔‘‘ داروغہ جی کے دل کو بات نہ چپکی۔۔۔ ’’تم تو جمعداربے پر کی اڑانےلگے۔ ارے میاں، تک بندی سے کیا فائدہ، قدم قدم بڑھنا چایے۔ قاتل کا پتہ لگانے سے پہلے پتہ لگانے کے صحیح طریقہ کا پتہ لگانا چاہیے۔ یعنی یہ معلوم کرنا چاہیے کہ پتہ کس ذریعہ سے لگ سکتا ہے۔ ملازم کو تو میں نے بند کر ہی دیا۔۔۔ سالا پچاس جوتوں میں سب کھول دے گا۔۔۔ اور دوچار کو اور بند کردوں۔۔۔ بس ان سب کا عرق نچور لیجیو۔۔۔ یہ نہیں کہ کاتا اور لے دوری۔۔۔ ہلکی آنچ پر تفتیش کی ہانڈی پکاؤ۔۔۔ ہاں جمعدار!‘‘

’’بجا ہے سرکار! پھرآپ کاتجربہ اور آپ کی عقل ہم جاہلوں، گنواروں کے پاس کہاں؟‘‘

بارہ دن گزر گئے، مقتول کی لاش کا پتہ نہیں۔ قاتل بھی لاپتہ ہے۔ تفتیش جاری ہے اور داروغہ نے مسل مرتب کرلی ہے۔ شہادتیں تیار ہیں۔ ثبوت کے گواہ بھی تجویز ہوگئے ہیں۔ مجسٹریٹ سے گرفتاری کا وارنٹ مانگا جانے والا ہے۔ ہر چیز تیار ہے۔ درحقیقت سارا مقدمہ اور چالان تیار ہے۔ صرف خفیف سی کمی یہ رہ گئی ہے کہ ابھی قاتل کا پتہ نہیں چلا۔ اور اس کے علاوہ غیراہم سہی، لیکن ایک کمی یہ بھی ہے کہ مقتول کی لاش کا پتہ نہیں۔ مشتبہ اشخاص کئی ہیں۔ بحث صرف یہ ہے کہ کس کے اور کتنوں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرایا جائے۔ رات کو داروغہ جی کھانا کھاکر اپنے بستر پر لیٹے ہیں، سامنےایک مونڈھے پر تھانہ کے ’’منشی جی‘‘ اور جمعدار بیٹھے ہیں۔ تینوں کے بیچ میں ۔۔۔ اس تثیث کامرکزی نقطہ۔۔۔ ایک حقہ رکھا ہوا ہے۔ گفتگو بہت رازدارانہ ہے۔

’’اجی، ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ وارنٹ ہوجائے۔ کسی کے خلاف ہی ہو۔ مقدمہ تو عدالت میں آجائے۔ ثبوت تو تیار ہو ہی جائے گا۔ اور اس میں آسانی بھی بڑی ہے جو کوئی اپنے کو بے گناہ کہے گا وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرے گا۔ کردے ثابت۔ ہم اگر تین ملزم پیش کریں گے، ایک اگر بری ہوگا تو دو رہ جائیں گے۔ دو اگر بری ہوگئے تب بھی ایک تو رہے گا۔‘‘

’’اور اگر تینوں عدالت سےبری ہوگئے؟‘‘ منشی جی نے لقمہ دیا۔ عدالتی کارروائیوں کے متعلق داروغہ جی کے مشیر خاص منشی جی تھے۔

’’منشی جی تم بھی کیا باتیں کرتے ہو، تین ملزموں میں سے ایک بھی مجرم ثابت نہ ہوسکے؟‘‘

دس دن اور گزر گئے۔ داروغہ جی نے تین ملزموں کے گرفتاری کے وارنٹ حاصل کرلیے۔ سب سے پہلے پولیس کی جماعت موہنی طوائف کے گھر وارنٹ کی تعلیم کرنےپہنچی۔

’’ارے کواڑ کھولو! کہاں ہے موہنی؟ کیا کہا، نہیں ہے؟یہاں نہیں ہے تو کہاں ہے؟ چھپ کر کہاں جائے گی، حرامزادی، بمبئی گئی ہے، یہ نہ کہہ دیا حج کرنے گئی ہے۔ بتاؤ سالو! کہاں ہے ملزمہ، ہم سے بچ کر کہاں جائے گی سسری! یہ پولیس ہے پولیس ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے۔ ابھی حاضر کرو ملزمہ کو۔۔۔ نہیں تو۔۔۔‘‘

’’سرکار! وہ تو قسم خدا کی بیس پچیس روز سے یہاں نہیں ہیں۔ بمبئی گئی ہوئی ہیں۔‘‘

’’بمبئی کی ایسی تیسی۔ سچ بتاؤ کہاں چھپایا ہے۔۔۔ یوں نہبتائے گی۔ حرامزادی، چوٹی پکڑ کر لگاؤ تو ایک چانٹا۔ ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں، مجھے بھی کوئی تماشبین سمجھا ہے، ناٹکہ جی! میں تھانہ دار ہوں۔ تھانہ دار۔ لینا جمعدار ذرا بڑھیا ڈہڈو کی خبر!‘‘

داروغہ جی ایک بید کا ٹکڑا ہاتھ میں لیے، سگریٹ منہ میں دبائے ٹہل رہے ہیں:

’’جیسی چاہو قسم لے لو داروغہ جی۔ موہنی یہاں نہیں ہے، ہاں کل آنے والی ہے۔ وہ بمبئی سےآج چلی ہوگی۔ ہزار گواہ پیش کردوں گی۔ اس کو گئے تو بیس پچیس دن ہوگئے۔ کیوں استاد جی کہتے نہیں ہو، تم ہی تو اس کو پہنچانے اسٹیشن پر گئے تھے۔ اور داروغہ جی آپ سے کیا پردہ ہے۔ آپ جاکر پوچھ نہ لیجیے، وہ تو خان صاحب کے ساتھ گئی ہے۔

’’کون خان صاحب، بتا حرامزادی کون خان صاحب، ہم نہیں جانتے کون خان صاحب، ملزمہ کو حاضر کر۔‘‘

’’ارے وہی خان صاحب۔ داروغہ میاں، انہیں کون نہیں جانتا؟ وہی ناپتوکیڑہ کے زمیندار۔ خداداد خاں۔۔۔ کیوں استاد جی، تم نے تو دونوں کو ریل میں سوار ہی کرایا تھا۔‘‘

اس شب کو داروغہ جی نے اپنے روزنامچہ میں کیا کھپایا اور منشی جی نے کیا لکھا۔۔۔ ہمیں معلوم نہیں۔ تفتیش بہرحال نامکمل ہی رہی۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.