سراب حیات
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
کیوں! کس خیال میں ہو؟ آج آپ کی طبیعت کچھ متفکر معلوم ہوتی ہے۔ نہیں کوئی بات نہیں ہے۔ یوں ہی سست ہے۔ آدمی کو کبھی کچھ خیال ہوتے ہیں کبھی کچھ۔ ان ہی خیالات سے کبھی آپ ہی آپ خوش ہوتا ہے، کبھی آپ ہی آپ متفکر ہوتا ہے۔
بھلا کہیے تو سہی کہ کن خیالات نے آپ کو متفکر کیا ہے؟ ہم بھی تو سنیں! چند روز ہوئے کہ میں نے ایک گھنٹہ اپنے کمرے میں لگایا ہے۔ اس کا لنگر ٹوٹ گیا تھا، وہ بند تھا، نہ چلتا تھا، نہ آواز دیتا تھا۔ ایک دوست نے مہربانی سے اس کو بنا دیا۔ وہ چلنے لگا اور آواز دینے لگا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ دن رات چلتا ہے، ایک سے اپنا دورہ شروع کرتا ہے اور بارہ پر ختم کر دیتا ہے۔ اس کی ایک الٹ پھیر میں دن رات ختم ہو جاتا ہے۔ جب ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا؟ تو معلوم ہوتا ہے، کچھ نہیں۔ یہی دھن کئی دن سے مجھے لگی ہوئی تھی اور اسی خیال میں غلطاں و پیچاں تھا کہ یکا یک ہمارے دوست پادری رجب علی صاحب نے ایک کتاب بھیجی جس کے سرے پر لکھا تھا، ’’سرابِ حیات۔‘‘ میں بہت خوش ہوا اور سمجھا کہ شاید اس سے کچھ عقدہ حل ہوگا۔
یہ کتا ب در اصل انگریزی میں ہے اور جانسن نے بڑی ٖفصاحت و بلاغت سے لکھی ہے۔ اس کا ترجمہ پنڈت بشمبر ناتھ نے کچھ کمی بیشی کے ساتھ نہایت قابلیت سے اردو زبان میں کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے نہایت لائق اور مشہور اور عقل مند اور فصیح و ظریف و شاعر، فیاض و بخیل آدمیوں کا جو ہمارے زمانے سے تھوڑے ہی دن پہلے اسی دنیا میں موجود تھے ذکر کیا ہے، اور پھر دکھایا ہے کہ کس طرح حسرت و افسوس سے اس دنیا سے گیے۔ تمام مال و دولت چھوڑ گیے۔ نہ وہ عقل مندی کام آئی اور نہ وہ متاعِ دنیا۔ زبانِ حال سے یوں کہتے کہتے مر گئے۔
کس لیے آئے تھے کیا ہم کر چلے
تہمتیں چند اپنے ذمّہ دھر چلے
اس کتاب نے بہ عوض سلجھانے کے میرے خیالات کو اور الجھا دیا اور یہ سوال دل میں پیدا ہوا کہ ’’کس لیے آئے تھے؟‘‘ اسی سوچ میں تھا کہ میں نے اپنے کمرہ کا دروازہ کھولا۔ ایک خوش نما ندی اور سر سبز درخت اور شاداب کھیتی پر میری نظر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ندی کا پانی بہا چلا جاتا ہے، پچھلا آتا ہے اور اگلا چلا جاتا ہے۔ درختوں کو میں نے دیکھا کہ پرانے جاتے ہیں اور نئے آتے ہیں۔ پکی کھیتی کاٹی جاتی ہے اور نئی بوئی جاتی ہے۔ یہی آوا گون لگ رہا ہے۔ یہ ا س لیے آئے تھے اور کس لیے گئے۔ کیا یہ بھی کچھ حسرتیں لے گئے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر میں نے غور کیا کہ شاید یہ مسئلہ کہ’’کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے‘‘ متحرک جان داروں سے متعلق ہوگا۔ میں نے سب کی حالت پر اپنا خیال دوڑایا۔ میں نے شیر کا خیال کیا جو سب سے زیادہ خوب صورت، سب سے زیادہ شان دار، سب سے زیادہ شجاع، سب سے زیادہ غیور ہے، مگر سب میں موذی اور زند بار آزار مشہور ہے۔ جب اس کی مردہ لاش کا میں نے دھیان کیا تو دیکھا ایک بے حرکت لاشہ پھول کر پیٹ پھٹا ہوا، انتڑیاں گیدڑوں کی کھائی ہوئی، سنہری کھال خاک میں ملی ہوئی، گوشت گل کر زمین پر پڑا ہوا، ہڈیوں کا ڈھانچا ہی ڈھانچا تھا اور غالبا ًوہ بھی چند روز کو۔
میں سمجھا کہ یہ تو اسی قسم کا جانور تھا جس قسم کے آدمیوں کا ’’سراب ِ حیات‘‘ میں جانسن نے ذکر کیا ہے، کسی اس سے عمدہ جانور کو دیکھو۔
اتنے میں کتے کا مجھے خیال آیا۔ میں سمجھا کہ سب جانوروں میں یہی خدا رسیدہ ہے۔ قناعت، محبت، رفاقت، دوستی، وفاداری، اپنے مالک کی اطاعت اور سب سے زیادہ کسر نفسی اسی پر ختم ہے۔ سب دور دور کرتے ہیں۔ مثلاً مولوی تو نجس العین بتاتے ہیں مگر یہ غریب سب کے سامنے عاجزی اور کسر نفسی سے دم ہلاتا اور سر جھکاتا ہے۔ مگر جب وہ بھی مرا تو ایک لاشہء بے حرکت تھا۔ نہ وہ دم کا ہلانا تھا نہ سر کا جھکانا، نہ وہ رفاقت تھی نہ وہ اطاعت۔ چند روز میں اسی طرح ہڈیوں کا ڈھانچا تھا۔ منہ کھلا، جبڑا ننگا، دانت اور کچلیاں کھلی ہوئیں اور ہزاروں چیونٹیاں اس میں گھسی ہوئی۔ میں نہایت متعجب ہوا، کہا کہ میاں انجام تو دونوں کا ایک سا ہی ہوا۔
میں نے کہا نہیں کسی مقدس جانور کو لو۔ میں نے کبوتر کا خیال کیا جو دنیا میں سب سے مقدس شمار ہوتا ہے۔ بھولی بھالی صورت، پیاری پیاری باتیں، جو رو خصم نہایت محبت، دونوں کا سوشیل برتاؤ نہایت میٹھا۔ تقدس میں بھی سب سے بڑھاہوا۔ نوح علیہ السلام کے لیے زیتون کی مبارک ٹہنی لانے والا، مسیح کے لیے روح القدس بن کر اترنے والا، مکہ معظمہ میں کعبہ کا طواف کرنے والا، تمام خانقاہوں کا مجاور ہوکر رہنے والا، اپنے پروں کی ہوا سے بیماروں کو شفا بخشنے والا، ہندوؤں اور بودہست لوگوں کو جی کے بچاؤ کی ہدایت کرنے والا، مگر جب اس کا بھی انجام دیکھا تو ا س سے زیادہ کچھ نہ پایا کہ پرنچے ہوئے کہیں پڑے ہیں، چونچ کہیں اور پنجے کہیں، چند روز تک سینہ ڈھانچا پڑا ہے، پھر وہ بھی نہیں۔
میں نے اپنے خیال کو انسان کی طرف پلٹا کہ یکایک میرے سامنے سلطان عبد العزیز خاں کا ماجرا آموجود ہوا جو نہایت مشہور اور بہادر شخص تھا۔ لڑائیوں میں نہایت دلیری و دانائی سے لڑا تھا۔ پندرہ برس سے قسطنطنیہ کے تختِ شاہی پر جلوس کرتا تھا، لوگ کہتے ہیں کہ نہایت فضول خرچ تھا۔ عورتوں پر بہت فریفتہ تھا چناں چہ ۵۳ عورتیں اس کی حرم سرا میں تھیں۔ ملک میں روپیہ کی کمی تھی۔ شاہی خزانہ خالی تھا۔ باغیوں سے سلطنت میں آفت برپا تھی۔ مگر اس نے کئی کروڑ روپیہ اپنے خزانہ میں عیاشی کے لیے چھپا رکھا تھا۔ اپنی پیاری جورو کی خوشی کے لیے ترکوں کی ولی عہدی کی پرانی رسم کو توڑنا چاہتا تھا۔ اس جورو سے جو بیٹا تھا۔ اس کو ولی عہد بنا نا چاہتا تھا اور ملک کی بربادی کا کچھ خیال نہ کر اس کام کے پور ا ہونے کو ملک کے دشمن آدمیوں کو اپنا دوست بناتا تھا۔
کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے جرموں میں اسی کی سلطنت کے لوگوں نے اس پر یورش کی۔ تخت سے اتار دیا اور محل سے نکال ایک چھوٹے سے مکان میں قید کر دیا۔ سلطنت جانے کی حسرت نے اس کے دل کو بے تاب کر دیا اور اپنے تئیں آپ مار مرا۔ میرے خیال نے جھٹ ہاتھ دوڑایا۔ پہلے تو ماتھے پر رکھا پھر نتھنوں کے سامنے لے گیا کہ شاید کچھ سانس چلتی ہو۔ سینہ کو ٹٹولا، ہاتھ کو دیکھا، پاؤں کو دیکھا، چاروں طرف غور کیا، بجز ایک لاش کے کچھ نہ پایا، سینہ پر کان لگایا کہ شاید وہ ہڈیاں اچھل رہی ہوں مگر کچھ پتہ نہ لگا۔ میں سمجھا کہ اب اس میں کچھ نہیں۔ چند روز میں یہ گوشت و پوست بھی نہ ہوگا، صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جاوے گا اور چند روز بعد وہ بھی نہ ہوگا۔ مجھے جانسن کی ’’سرابِ حیات‘‘ یاد آئی اور سمجھا کہ دنیا کی حسرت میں مرا۔ اس لیے اس کا یہ حال ہوا۔
مجھ کو اشتیاق ہوا کہ کسی بڑے خدا رسیدہ دنیا کی طرف سے پژ مردہ مرے ہوئے کا حال دیکھوں۔ پنجاب کا ایک نہایت متبرک شخص میری آنکھوں میں پھر گیا۔ اس کے دیکھنے سے میں بہت خوش ہوا۔ خدا کے سوا اور کچھ کلام نہ تھا۔ عبادت کے سوا کچھ کام نہ تھا، دنیا اور اس کا عیش محض بے حقیقت تھا۔ جو لو تھی وہ خدا و رعقبیٰ سے لگی ہوئی تھی۔ اتفاقات سے ان کا بھی آخری وقت آ پہنچا۔ اپنی اول منزل کی انہوں نے وصیت کی اپنے دوستوں کو نصیحت۔ نہایت شاداں و فرحاں سفر کی تیاری کی اور بغیر کسی ارمان و حسرت کے جان دی۔ میرے خیال نے جھٹ ہاتھ بڑھایا، ماتھے پر رکھا، نتھنوں کے سامنے کیا، دل ٹٹولا، سینہ ٹٹولا، ہاتھ دیکھا، پاؤں دیکھا، کچھ نہ تھا، سینہ پر ٹکٹکی باندھی کہ اس کے اندر سے ضرور کچھ روشنی جھلکتی ہوگی پر کچھ نہ تھی۔ میں گھبرایا اور بے اختیار بولا کہ اجی حضرت بولوتو سہی۔ وہاں کیا تھا، سانس بھی نہ تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تو ویسا ہی معاملہ ہوگیا جیسا کہ ان سے پہلوں کے ساتھ ہوا تھا۔ دنیا کی حسرت لے جانے اور عبادت کے شوق میں مر جانے میں تو اب تک کچھ فرق نہیں دکھائی دیا۔
اتنے میں لوگ ان کی تجہیز و تکفین کرنے لگے۔ قدیم خانقاہ میں اگلے سجادہ نشینوں کی قبروں کے برابر قبر کھودنے لگے۔ میں نے گھبرا کر کہا کہ دو چار دن رہنے تو دو۔ مجھے سمجھ تو لینے دو کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ باولا ہوا ہے۔ کوئی مردوں کو رکھتا بھی ہے تمام کھال بکس جاوے گی، گوشت گل پڑے گا، ہڈیوں کا ڈھانچا نکل آوے گا، کوّے اور چیلیں منڈلانے لگیں گی، ہڈیوں کے ڈھانچہ سے لوگ ڈر کر بھاگنے لگیں گے۔ یہ سن کر تو میں ششدر رہ گیا۔ تمام اگلے لاشے میری آنکھوں میں پھر گئے۔ میں نے کہا کہ میاں اور سب کا بھی تو یہی حال ہوا تھا۔ کیا یہی بات سچ ہے۔
چو آہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت مردن چہ برروئے خاک
میں نہایت متردد و متفکر، حیران و ششدر وہاں سے اٹھا اور دل بہلانے کے لیے اپنے باغ میں گیا جو ایک بہت بڑا باغ تھا اور جوانی اور ولولے کے زمانے میں میں نے اس کو از سر نو نہایت خوب صورت و خوش نما آراستہ کیا تھا اور وہاں اکثر دوستوں کا اور بڑے بڑے نامی اور باکمال لوگوں کا مجمع ہوتا تھا۔ غالب کی د ل کش و محبت آمیز بزرگانہ باتوں سے، آزردہ کی دل چسپ و دل ربا فصاحت سے، شیفتہ کی متین و نیم خندہ زن وضع سے، صہبائی جاں نواز کے میخانہ محبت سے دل شادشاد رہتا تھا۔
ادھر ادھر پھر رہا تھا۔ ایک چمن میں پہنچا جس کی نئی کھدائی ہوئی تھی، مٹی میں ایک ہڈی دکھائی دی جس کو میں بکرے کی سری سمجھا۔ میں نے ٹھوکر مار کر پرے پھینک دیا، جب وہ نکلی تو بکرے کی سری نہ تھی بلکہ آدمی کی کھوپڑی تھی۔ میں نے اپنے دل سے کہا کہ ایک دن اس طرح کوئی شخص میری کھوپڑی کو بھی ٹھوکر مارےگا۔ میں نے دوڑ کر اسے اٹھا لیا اور دیکھا صرف ہڈیاں جوڑی رہ گئی ہیں۔ پیشانی کی ہڈی پر خط، خط میں شاید وہی نوشتہ تقدیر ہو، پر پڑھی نہیں گئی۔ آنکھوں کی جگہ ایک گڑھا اور حلقہ تھا، انگلی ڈالو تو کچھ نہیں، ناک کی خوب صورتی بالکل نہ تھی، ایک شکستہ تھوڑی سی اونچی نہایت بد نما ہڈی کا نشان تھا ااور اس کا سوراخ نہایت ہی برا معلوم ہوتا تھا۔ وہ دانت جن کو موتی اور اولوں کی باڑ کہتے تھے، ایسے ہیبت ناک دکھائی دیتے تھے کہ دل کانپنا تھا۔
میں نے اپنی بے ادبی کی جو نادانستہ ہوئی معافی چاہی اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ کیا مذہب تھا؟ عالم تھے، فقیر تھے، دنیا کی حسرت میں مرے یا خدا کی عبادت میں؟ ہر چند پوچھا، کچھ جواب نہیں ملا۔ پھر میں اس کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا کہ شاید کچھ نشان بھلائی برائی کا ملے، کچھ نہ ملا۔ ایک بڈھا باغبان میری ان سب باتوں کو دیکھ رہا تھا کہ میاں کیا دیکھتے ہو؟ اچھے بروں کا، گیدڑ بھیڑیے کا، مرے پر سب کا ایک سا حال ہو جاتا ہے۔ میں سخت متعجب ہوا اور جانسن کی ’’سراب حیات‘‘ کو یاد کیا کہ پھر اس نے کیا کہا۔
میرے دوست نے کہا کہ تمہارے خیال بھی نہایت خام ہیں اور تمہارے متفکر ہونے پر بھی نہایت افسوس ہے۔ تم اس مٹی کے ڈھیر اور سڑنے والے گوشت اور گلنے والی ہڈیوں میں کیا ڈھونڈتے تھے، جو چیز دیکھنے کی تھی وہ تو اس میں تھی ہی نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر وہ کہاں تھی؟ اس نے کہا کہ معلوم نہیں، پھر پوچھا کہ کیسی تھی، بولا کہ معلوم نہیں۔ پھر پوچھا کہ کہ دکھائی دیتی تھی کہا نہیں، پھر پوچھا کہ کہاں گئی، کہا معلوم نہیں۔
اس جواب سوال سے میں اور بھی متحیر ہوا کہ جس چیز کا کسی طرح پر علم نہیں اس کی نسبت کہتا ہے کہ تھی۔ بولا کہ خدا نے کہا ہے۔ میں نے کہا سچ۔ ’’ولکن لیطمئن قلبی۔‘‘ یہ سنا اور سن کر خاموش رہا۔ میں نے کہا کہ یہ سب تمہارے خیالات ہیں کہ وہ شخص دنیا کی حسرت میں مرا اور وہ شخص خدا کی عبادت میں مرے۔ پر سب برابر ہیں۔ جو بات سچ ہے وہ آپس کی ہمدردی، قومی اعانت، قومی بھلائی ہے، جب کہ ہماری قوم کا دنیا میں یہ حال ہے کہ ذلت و خواری، نکبت و جہالت میں مبتلا ہے۔ تو اگر کوئی دنیا کی حسرت میں مر کر جہنم میں گیا تو ہماری جوتی سے اور عبادت کر بہشت میں گیا تو ہماری بلا سے، ان کا کیا رونا ہے۔ جیتوں کو رو، جو مردوں سے بھی بدتر ہیں۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |