سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
by میر انیس

سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو

پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو

کمال فقر بھی شایاں ہے پاک بینوں کو
یہ خاک تخت ہے ہم بوریا نشینوں کو

لحد میں سوئے ہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو
قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو

یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے
چنا ہے جامۂ اصلی کی آستینوں کو

لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

بھلا تردد بے جا سے ان میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو

انہیں کو آج نہیں بیٹھنے کی جا ملتی
معاف کرتے تھے جو لوگ کل زمینوں کو

یہ زائروں کو ملیں سرفرازیاں ورنہ
کہاں نصیب کہ چومیں ملک جبینوں کو

سجایا ہم نے مضامیں کے تازہ پھولوں سے
بسا دیا ہے ان اجڑی ہوئی زمینوں کو

لحد بھی دیکھیے ان میں نصیب ہو کہ نہ ہو
کہ خاک چھان کے پایا ہے جن زمینوں کو

زوال طاقت و موئے سپید و ضعف بصر
انہیں سے پائے بشر موت کے قرینوں کو

نہیں خبر انہیں مٹی میں اپنے ملنے کی
زمیں میں گاڑ کے بیٹھے ہیں جو دفینوں کو

خبر نہیں انہیں کیا بندوبست پختہ کی
جو غصب کرنے لگے غیر کی زمینوں کو

جہاں سے اٹھ گئے جو لوگ پھر نہیں ملتے
کہاں سے ڈھونڈ کے اب لائیں ہم نشینوں کو

نظر میں پھرتی ہے وہ تیرگی و تنہائی
لحد کی خاک ہے سرمہ مآل بینوں کو

خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse