سخنورانِ عہد سے خطاب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سخنورانِ عہد سے خطاب
by ظفر علی خان

اے نکتہ وران سخن آرا و سخن سنج
اے نغمہ گران چمنستان معافی

مانا کہ دل افروز ہے افسانۂ عذرا
مانا کہ دل آویز ہے سلمیٰ کی کہانی

مانا کہ اگر چھیڑ حسینوں سے چلی جائے
کٹ جائے گا اس مشغلے میں عہد جوانی

گرمائے گا یہ ہمہمہ افسردہ دلوں کو
بڑھ جائے گی دریائے طبیعت کی روانی

مانا کہ ہیں آپ اپنے زمانے کے نظیریؔ
مانا کہ ہر اک آپ میں ہے عرفی ثانی

مانا کی حدیث خط و رخسار کے آگے
بے کار ہے مشائیوں کی فلسفہ دانی

مانا کہ یہی زلف و خط و خال کی روداد
ہے مایۂ گل کاریٔ ایوان معافی

لیکن کبھی اس بات کو بھی آپ نے سوچا
یہ آپ کی تقویم ہے صدیوں کی پرانی

معشوق نئے بزم نئی رنگ نیا ہے
پیدا نئے خامے ہوئے ہیں اور نئے مانیؔ

مژگاں کی سناں کے عوض اب سنتی ہے محفل
کانٹوں کی کتھا برہنہ پائی کی زبانی

لذت وہ کہاں لعل لب یار میں ہے آج
جو دے رہی ہے پیٹ کے بھوکوں کی کہانی

بدلا ہے زمانہ تو بدلیے روش اپنی
جو قوم ہے بے دار یہ ہے اس کی نشانی

اے ہم نفسو یاد رہے خوب یہ تم کو
بستی نئی مشرق میں ہمیں کو ہے بسانی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse