سحر ہم نے چمن اندر عجب دیکھا کل اک دل بر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سحر ہم نے چمن اندر عجب دیکھا کل اک دل بر
by نظیر اکبر آبادی

سحر ہم نے چمن اندر عجب دیکھا کل اک دل بر
سہی قامت پری پیکر مقطع وضع خوش منظر

سخن بر غنچہ لب گل رو جبین مہر اور کماں ابرو
دو چشم شوخ پر جادو نگہ تیر اور مژہ نشتر

شمیم زلف مشک افشاں تغافل سو ستم ساماں
غرور اور ناز بے پایاں مزاج اور طبع نازک تر

ادائیں سب فسوں آئیں نہ چھوڑیں دل نہ چھوڑیں دیں
فریب و عشوہ صلح آگیں عتاب و غمزہ جنگ آور

یہ دیکھا ہم نے جب عالم تو رکھ دل ہاتھ پر ہمدم
کہا ہیں نذر کرتے ہم جو لے لیجے تو ہے بہتر

کہا لے جا تو اپنا دل کہ تو کیا اور تیرا دل
نہ لیویں ہم تو ایسا دل کہا جب ہم نے یوں ہنس کر

یہی اک دل ہے بچارا بھلا ہے یا کہ ناکارہ
اگرچہ ہے یہ آوارہ و لیکن ہے وفا پرور

جو نامنظور کرتے ہو تو کر دو یہ کب اٹھتا ہے
ہے جب تک دم میں دم اس کے رہے گا یہ اسی در پر

نظیرؔ اس نے سنا یہ جب تو بولا یوں وہ شیریں لب
ہمارا ہو چکا یہ اب بس اس قصے کو کوتہ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse