سحر کو بھی مری محفل میں برہمی نہ ہوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سحر کو بھی مری محفل میں برہمی نہ ہوئی
by ثاقب لکھنوی

سحر کو بھی مری محفل میں برہمی نہ ہوئی
تمام رات ہوئی درد میں کمی نہ ہوئی

غرور حسن تمنائے دل کا دشمن تھا
وہ کون دن تھا کہ جس دن ہماہمی نہ ہوئی

امنڈ رہی ہے مرے دل کے ساتھ برسوں سے
یہ کوئی نہر ہوئی آنکھ کی نمی نہ ہوئی

میں اپنے قتل کا شاکی نہیں ہوا تو ہوا
یہ رنج ہے کہ ترے ظلم میں کمی نہ ہوئی

لحد پہ آنے کی انداز سیکڑوں تھے مگر
خوش آئی وضع انہیں وہ جو ماتمی نہ ہوئی

الٹ الٹ گئے دل میرے انتقال کے بعد
یہ کیا کہ آپ کی زلفوں میں برہمی نہ ہوئی

ہزاروں اٹھ گئے آغوش دہر سے لیکن
عجیب گھر ہے زمانہ جہاں غمی نہ ہوئی

یہ جسم روح بہی خواہ کا رہا دشمن
تمام عمر کبھی صلح باہمی نہ ہوئی

ہر ایک کے لئے کھینچا روا نہیں ثاقبؔ
بھوؤں کا حسن ہی کیا ہے اگر خمی نہ ہوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse