سحر جو نکلا میں اپنے گھر سے تو دیکھا اک شوخ حسن والا
سحر جو نکلا میں اپنے گھر سے تو دیکھا اک شوخ حسن والا
جھلک وہ مکھڑے میں اس صنم کے کہ جیسے سورج میں ہو اجالا
وہ زلفیں اس کی سیاہ پر خم کہ ان کے بل اور شکن کو یارو
نہ پہنچے سنبل نہ پہنچے ریحاں نہ پہنچے ناگن نہ پہنچے کالا
ادائیں بانکی عجب طرح کی وہ ترچھی چتون بھی کچھ تماشہ
بھنویں وہ جیسے کھنچی کمانیں پلک سناں کش نگاہ بھالا
وہ آنکھیں مست اور گلابی اس کی کہ ان کو دیکھے تو دیکھتے ہی
مئے محبت کا اس کی دل کو ہو کیا ہی گہرا نشہ دوبالا
لبوں پہ سرخی وہ پان کی کچھ کہ لعل بھی منفعل ہو جس سے
وہ آن ہنسنے کی بھی پھر ایسی کہ جس کا عالم ہے کچھ نرالا
وہ جامہ زیبی وہ دل فریبی وہ سج دھج اس کی وہ قد زیبا
کہ دیکھ جس پر فدا ہوں دل سے وہ جن کو کہتے ہیں سرو بالا
نگہ لڑائی ہے اس نے جس دم جھٹک لیا جھپ تو دل کو میرے
ادا ادا نے ادھر دبوچا پلک پلک نے ادھر اچھالا
جو لے لیا دل کو میرے یارو تو اس نے لی راہ اپنے گھر کی
پڑا تڑپتا میں رہ گیا واں زباں پہ آہ اور لبوں پہ نالہ
بہت یہ میں نے تو چاہا پوچھوں میں نام اس کا ولے وو گل رو
نہ مجھ سے بولا نہ کی اشارت نہ دی تسلی نہ کچھ سنبھالا
پری رخ من شکر لب من و مے تو باز آ بہ پیش چشمم
بیاد سرو تو بے قرارم نہال عشقت شدہ است بالا
فداے وجہک عشی شرقاً و موع نہراً و من فراقک
کثیر حزنا مع الہموم ثقیل ہجرا و کالجبالا
تسا دے ملنے نوں دل ہے بے کل ایہی او گلاں نت آکھدا ہے
سدا لے مینوں دے اپنے گھر وچ نہیں تو اتھے اسا دے نال آ
تمہاری آسا لگی ہے نس دن تمہارے درشن کو ترسیں نیناں
دلارے سندر انوٹھے ابرن ہٹیلے موہن انوکھے لالا
چہن کے من کو جو چھننوں تھی اے یار کائیں لگائی اتنی
بھرایتیں آ کر کھبر لو مہاں کی پلک کٹارا جو تھاں نے گھالا
اگن برت ہے ہیا میں مورے برہ میں تیرے اے من موہنواں
تورے جو نیناں نے موہا مہکو نہ جینوں تنکو بھوا وکھالا
جگت سبہا امت برہمکھ اٹک کہسوا ممن کرن کھا
دوانی کینی تمن سریجن نہ سدھ کی گر پر نہ بدھ کی جھالا
کبھی تو ہنس کر شتاب آ جا نظیرؔ کی بھی طرف ٹک اے جاں
بنا کے سج دھج پھرا کے دامن لگا کے ٹھوکر ہلا کے بالا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |