سحر البیان

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سحر البیان
by میر حسن دہلوی

کروں پہلے توحید یزداں رقم
جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

سر لوح پر رکھ بیاض جبیں
کہا: دوسرا کوئی تجھ سا نہیں

قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا
ہوا حرف زن یوں کہ: رب العلا!

نہیں کوئی تیرا، نہ ہوگا شریک
تری ذات ہے وحدہٗ لا شریک

پرستش کے قابل ہے تواے کریم!
کہ ہے ذات تیری غفور رحیم

رہ حمد میں تیری عزّ و جل!
تجھے سجدہ کرتا چلوں سر کے بل

وہ، الحق کہ ایسا ہی معبود ہے
قلم جو لکھے، اس سے افزود ہے

سبھوں کا وہی دین و ایمان ہے
یے دل ہیں تمام اور وہی جان ہے

تر و تازہ ہے اس سے گلزار خلق
وہ ابر کرم، ہے ہوا دار خلق

اگرچہ وہ بے فکر و غیّور ہے
ولے پرورش سب کی منظور ہے

کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جاں
جو وہ مہرباں ہو، تو گل مہرباں

اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں
پر، اس بن تو کوئی کسی کا نہیں

موئے پر نہیں اس سے رفت و گزشت
اسی کی طرف سب کی ہے بازگشت

رہا کون اور کس کی بابت رہی
موئے اور جیتے وہی ہے وہی

نہاں سب میں، اور سب میں ہے آشکار
یہ سب اس کے عالم ہیں ہژدہ ہزار

ڈرے سب ہیں اس سے، وہی سب سے پیش
ہمیشہ سے ہے اور رہے گا ہمیش

چمن میں، ہے وحدت کے، یکتا وہ گل
کہ مشتاق ہیں اس کے سب جز و کُل

اسی سے ہے کعبہ، اسی سے کنشت
اسی کا ہے دوزخ، اسی کا بہشت

جسے چاہے جنت میں دیوے مقام
جسے چاہے دوزخ میں رکھے مدام

وہ ہے مالکُ الملک دنیا و دیں
ہے قبضے میں اس کے زمان و زمیں

سدا بے نمودوں کی اس سے نمود
دل بستگاں کی ہے اس سے کشود

اسی کی نظر سے ہے ہم سب کی دید
اسی کے سخن پر ہے سب کی شنید

وہی نور، ہے سب طرف جلوہ گر
اسی کے یہ ذرے ہیں شمس و قمر

نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں، پر ہر اک شے میں ہے

نہ گوہر میں ہے وہ، نہ ہے سنگ میں
و لیکن چمکتا ہے ہر اک رنگ میں

وہ ظاہر میں ہر چند ظاہر نہیں
پہ، ظاہر کوئی، اس سے باہر نہیں

تامل سے کیجے اگر غور کچھ
تو سب کچھ وہی ہے، نہیں اور کچھ

اسی گل کی بو سے ہے خوش بو گلاب
پھرے ہے لیے ساتھ دریا، حباب

پر، اس جوش میں آ کے، بہنا نہیں
سمجھنے کی ہے بات، کہنا نہیں

قلم، گو زباں لاوے اپنی ہزار
لکھے کس طرح حمد پروردگار

کہ عاجز ہے یاں انبیا کی زباں
زبان قلم کو یہ قدرت کہاں!

اس عہدے سے کوئی بھی نکلا کہیں!
سوا عجز، درپیش یاں کچھ نہیں

وہ معبود یکتا، خدائے جہاں
کہ جس نے کیا ’’کن‘‘ میں کون و مکاں

دیا عقل و ادراک اس نے ہمیں
کیا خاک سے پاک اس نے ہمیں

پیمبر کو بھیجا ہمارے لیے
وصی اور امام اس نے پیدا کیے

جہاں کو انھوں نے دیا انتظام
برائی بھلائی سجھائی تمام

دکھائی انھوں نے ہمیں راہ راست
کہ تا، ہو نہ، اس راہ کی باز خواست

سو وہ کون سی راہ؟ شرع نبی
کہ رستے کو جنت کے سیدھی گئی

نعت حضرت رسالت پناہ کی
نبی کون، یعنی رسول کریم

نبوت کے دریا کا در یتیم
ہوا گو کہ ظاہر میں امی لقب

پہ، علم لدنی کھلا دل پہ سب
بغیر از لکھے، اور کیے بے رقم

چلے حکم پر اس کے لوح و قلم
ہوا علم دیں اس کا جو آشکار

گزشتہ ہوئے حکم، تقویم پار
اٹھا کفر اسلام ظاہر کیا

بتوں کو خدائی سے باہر کیا
کیا حق نے نبیوں کا سردار اسے

بنایا نبوت کا حق دار اسے
نبوت جو کی اس پہ حق نے تمام

لکھا: اشرفُ الناس، خیرُ الانام
بنایا سمجھ بوجھ کر خوب اسے

خدا نے کیا اپنا محبوب اسے
کروں اس کے رتبے کا کیا میں بیاں

کھڑے ہوں جہاں باندھ صف مرسلاں
مسیح اس کی خر گاہ کا پارہ دوز

تجلیٔ طور اس کی مشعل فروز
خلیل اس کے گلزار کا باغباں

سلیماں سے کئی مہر دار اس کے یاں
خضر اس کی سرکار کا آبدار

زرہ ساز داؤد سے دس ہزار
محمد کی مانند جگ میں نہیں

ہوا ہے نہ ایسا، نہ ہو گا کہیں
یہ تھی رمز، جو اس کے سایہ نہ تھا

کہ رنگ دوئی واں تک آیا نہ تھا
نہ ہونے کا سایے کا تھا یہ سبب

ہوا صَرف پوشش میں کعبے کی سب
وہ قد اس لیے تھا نہ سایہ فگن

کہ تھا گل وہ اک معجزے کا بدن
بنا سایہ اس کا لطیف اس قدر

نہ آیا لطافت کے باعث نظر
عجب کیا جو اس گل کا سایہ نہ ہو

کہ تھا وہ، گل قدرت حق کی بو
خوش آیا نہ، سایے کو، ہونا جدا

اسی نور حق کے رہا زیر پا
نہ ڈالی کسی شخص پر اپنی چھانو

کسی کا نہ منہ دیکھا، دیکھ اس کے پانو
وہ ہوتا زمیں گیر کیا فرش پر

قدم اس کے سایے کا تھا عرش پر
نہ ہونے کی سایے کے اک وجہ اور

مجھے خوب سوجھی، پہ ہے شرط غور
جہاں تک کہ تھے یاں کے اہل نظر

سمجھ مایۂ نور، کحلُ البصر
سبھوں نے لیا پتلیوں پر اٹھا

زمیں پر نہ سایے کو گرنے دیا
سیاہی کا پتلی کی ہے یہ سبب

وہی سایہ پھرتا ہے آنکھوں میں اب
وگرنہ یہ تھی چشم اپنی کہاں

اسی سے یہ روشن ہے سارا جہاں
نظر سے جو غائب وہ سایا رہا

ملائک کے دل میں سمایا رہا
نہیں ہمسر اس کا کوئی، جو علی

کہ بھائی کا بھائی، وصی کا وصی
ہوئی جو نبوت نبی پر تمام

ہوئی نعمت اس کے وصی پر تمام
جہاں فیض سے ان کے ہے کام یاب

نبی آفتاب و علی ماہتاب
منقبت حضرت امیرالمومنین کی

علی دین و دنیا کا سردار ہے
کہ مختار کے گھر کا مختار ہے

دیار امامت کے گلشن کا گل
بہار ولایت کا باغ سبل

علی راز دار خدا و نبی
خبردار سر خفی و جلی

علی بندۂ خاص درگاہ حق
علی سالک و رہبر راہ حق

علیّ ولی، ابن عمّ رسول
لقب شاہ مردان و زوج بتول

کہے یوں جو چاہے کوئی بیر سے
پہ نسبت علی کو نہیں غیر سے

خدا نفس پیغبرش خداندہ است
دگر افضلیت بہ کس ماندہ است؟

یہاں بات کی بھی سمائی نہیں
نبی و علی میں جدائی نہیں

نبی و علی، ہر دو نسبت بہم
دُو تا و یکے، چوں زبان قلم

علی کا عدوٗ: دوزخی، دوزخی
علی کا محب: جنتی، جنتی

نبی اور علی، فاطمہ اور حسن
حسین ابن حیدر، یہ ہیں پنج تن

ہوئی ان پہ دو جگ کی خوبی تمام
انہوں پر درود اور انہوں پر سلام

علی سے لگا تا بہ مہدیٔ دیں
یہ ہیں ایک نور خدائے بریں

اُنہوں سے ہے قائم امامت کا گھر
کہ بارہ ستوں ہیں یہ اثنا عشر

صغیرہ، کبیرہ سے یہ پاک ہیں
حساب عمل سے یہ بے باک ہیں

ہوا یاں سے ظاہر کمال رسول
کہ بہتر ہوئی سب سے آل رسول

سلام ان پہ جو ان کے اصحاب ہیں
وہ اصحاب کیسے، کہ احباب ہیں

خدا نے انہوں کو کہا مومنیں
وہ ہیں زینت آسمان و زمیں

خدا ان سے راضی، رسول ان سے خوش
علی ان سے راضی، بتول ان سے خوش

ہوئی فرض ان کی ہمیں دوستی
کہ ہیں دل سے وہ جاں نثار نبی

مناجات
الٰہی! بہ حق رسول امیں

بہ حق علی و بہ اصحاب دیں
بہ حق بتول و بہ آل رسول

کروں عرض جو میں، سو ہوئے قبول
الٰہی! میں بندہ گنہگار ہوں

گناہوں میں اپنے گراں بار ہوں
مجھے بخشیو میرے پروردگار!

کہ ہے تو کریم اور آمرزگار
مری عرض یہ ہے کہ جب تک جیوں

شراب محبت کو تیری پیوں
سوا تیری الفت کے، اور سب ہے ہیچ

یہی ہو، نہ ہو اور کچھ ایچ پیچ
جو غم ہو، تو ہو آل احمد کا غم

سوا اس الم کے نہ ہو کچھ الم
رہے سب طرف سے مرے دل کو چین

بہ حق حسن اور بہ حق حسین
کسی سے نہ کرنی پڑے التجا

تو کر خود بہ خود میری حاجت روا
صحیح اور سالم سدا مجھ کو رکھ

خوشی سے ہمیشہ خدا! مجھ کو رکھ
مری آل اولاد کو شاد رکھ

مرے دوستوں کو تو آباد رکھ
میں کھاتا ہوں جس کا نمک اے کریم!

سدا رحم کر اس پہ تو اے رحیم!
جیوں آبرو اور حرمت کے ساتھ

رہوں میں عزیزوں میں عزت کے ساتھ
بر آویں مرے دین و دنیا کے کام

بہ حق محمد علیہ السلام
تعیریف سخن کی

پلا مجھ کو ساقی! شراب سخن
کہ مفتوح ہو جس سے باب سخن

سخن کی مجھے فکر دن رات ہے
سخن ہی تو ہے، اور کیا بات ہے

سخن کے طلب گار ہیں عقل مند
سخن سے ہے نام نکو یاں بلند

سخن کی کریں قدر مردان کار
سخن، نام ان کا رکھے برقرار

سخن سے وہی شخص رکھتے ہیں کام
جنہیں چاہیے ساتھ نیکی کے نام

سخن سے سلف کی بھلائی رہی
زبان قلم سے بڑائی رہی

کہاں رستم و گیو و افراسیاب
سخن سے رہی یاد یہ نقل خواب

سخن کا صلہ یار دیتے رہے
جواہر سدا مول لیتے رہے

سخن کا سدا گرم بازار ہے
سخن سنج اس کا خریدار ہے

رہے جب تلک داستان سخن
الٰہی! رہے قدردان سخن

مدح شاہ عالم بادشاہ کی
خدیو فلک شاہ عالی گہر

زمیں بوس ہوں جس کے شمس و قمر
جہاں اس کے پرتو سے ہے کام یاب

وہ ہے برج اقلیم میں آفتاب
اسی مہر سے ہے منور یہ ماہ

جہاں ہووے اور ہو جہاں دار شاہ
وہ مہر منور، یہ ماہ منیر

اور اس کا یہ نجم سعادت وزیر
مدح وزیر آصف الدولہ کی

فلک رتبہ نوّاب عالی جناب
کہ ہے آصف الدولہ جس کا خطاب

وزیر جہاں، حاکم عدل و داد
ہے آبادیٔ ملک جس کی مراد

جہاں، عدل سے اس کے آباد ہے
غریبوں، فقیروں کا دل شاد ہے

پھرے بھاگتا مور سے فیل مست
زبردست ظالم، پہ ہے زیردست

کتاں پر کرے مہ اگر بد نظر
تو آدھا ادھر ہووے آدھا ادھر

کسی کا اگر مفت لے زلف دل
تو کھایا کرے پیچ وہ متصل

وہ انصاف سے جو گزرتا نہیں
کسی پر کوئی شخص مرتا نہیں

تو ہو باگ، بکری میں کچھ گفتگو
اگر اس کا چیتا نہ ہووے کبھو

گر آواز سن صید کی، کچھ کہے
تو باز آئے چپّک کہ بہری رہے

پھرے شمع کے گرد گر آ کے چور
صبا کھینچ لے جاوے اس کو بہ زور

نہ لے جب تلک شمع پروانگی
پتنگے کے پر کو نہ چھیڑے کبھی

اگر آپ سے اس پہ وہ آ گرے
تو فانوس میں شمع چھپتی پھرے

گر احیاناً اس کے جلیں بال و پر
تو گل گیر، لے شمع کا کاٹ سر

اسے عدل کی جو طرح یاد ہے
کسے یاد ہے؟ یہ خدا داد ہے

ستم اس کے ہاتھو سے رویا کرے
سدا فتنۂ دہر سویا کرے

گھروں میں فراغت سے سوتے ہیں سب
پڑے گھر میں چور اپنے روتے ہیں سب

وہ ہے باعث امن خرد و کلاں
کہ ہے نام سے اس کے مشق اماں

بیان سخاوت کروں گر رقم
تو در ریز کاغذ پہ ہووے قلم

نظر سے توجہ کی دیکھا جدھر
دیا مثل نرگس اسے سیم و زر

سخاوت یہ ادنیٰ سی ایک اس کی ہے
کہ اک دں دو شالے دیے سات سے

سوا اس کے، ہے اور یہ داستاں
کہ ہو جس پہ قربان حاتم کی جاں

ہوئی کم جو اک بار کچھ برشگال
گرانی سی ہونے لگی ایک سال

غریبوں کا دم سا نکلنے لگا
توکل کا بھی پانو چلنے لگا

وزیرالممالک نے تدبیر کر
خدا کی دیا راہ پر مال و زر

محلے محلے کیا حکم یہ
کہ باڑے کی اس غم کے کھولیں گرہ

یہ چاہا کہ خلقت کسی ڈھب جیے
ٹکے لاکھ لاکھ ایک دن میں دیے

یہ لغزش پڑی ملک میں جو تمام
لیا ہاتھ نے اس کے گرتوں کو تھام

یہ بندہ نوازی، یہ جاں پروری
یہ آئین سرداری و سروری

ہوئے ذات پر اس سخی کی تمام
تکلف ہے آگے سخاوت کا نام

فقیروں کی بھی یاں تلک تو بنی
کہ اک اک یہاں ہو گیا ہے غنی

یہ کیا دخل آواز دے جو گدا
چٹکنے کی گل کے نہ ہووے صدا

قدح لے کے نرگس جو ہووے کھڑی
تو خجلت سے جاوے زمیں میں گڑی

نہ ہو اس کا شامل جو ابر کرم
اثر ابر نیساں سے ہووے عدم

ہر اک کام اس کا: جہاں کی مراد
فلاطوں طبیعت، ارسطو نژاد

جب ایسا وہ پیدا ہوا ہے بشر
تب اس کو دیا ہے یہ کچھ مال و زر

لکھوں گر شجاعت کا اس کی بیاں
قلم ہو مرا رستم داستاں

غضب سے وہ ہاتھ اپنا جس پر اٹھائے
اجل کا طمانچہ قسم اس کی کھائے

کرے جس جگہ زور اس کا نمود
دل آہن کا اس جا پہ ہووے گبود

چلے تیغ گر اس کی زور مصاف
نظر آوے دشمن کا میدان صاف

اگر بے حیائی سے کوئی عدو
ملا دیوے اس تیغ سے منہ کبھو

تو ایسے ہی کھا کر گرے سر کے بل
کہ سر پر کھڑی اس کے رووے اجل

نہ ہو کیونکے وہ تیغ برق غضب
کہ برش کی تشدید، جوہر ہیں سب

لگاوے اگر کوہ پر ایک بار
گزر جائے یوں، جیسے صابن میں تار

ہوئی ہم قسم اس سے تیغ اجل
نکل آئے یہ، گر پڑے وہ اگل

غضب سے، غضب، اس کے کانپا کرے
تہور بھی ہیبت سے اس کی ڈرے

اور اس زور پر ہے یہ علم و حیا
کہ ہے خلق کا جیسے دریا بہا

جہاں تک کہ ہیں علم و نسب و کمال
ہر اک فن میں ماہر ہے وہ خوش خصال

سخن داں، سخن سنج، شیریں زباں
وزیر جہان و وحید زماں

سخن کی نہیں اس سے پوشیدہ بات
غوامض ہیں سب سہل اس کے نکات

سلیقہ ہر اک فن میں، ہر بات میں
نکلتی نئی بات دن رات میں

سدا سیر پر اور تماشے پہ دل
کشادہ دلی اور خوشی متصل

نہ ہو اس کو کیوں کر ہواے شکار
تہور شعاروں کا ہے یہ شعار

دلیروں کے تئیں، ہے دلیروں سے کام
کہ رہتا ہے شیروں کو شیروں سے کام

شہاں را ضروراست مشق شکار
کہ آید پئے صید دل ہا بہ کار

کھلے، بند جتنے ہیں صحرا میں صید
ہیں نواب کے دام الفت میں قید

زمہرش دل آہواں سوختہ
بہ فتراک او چشمہا دوختہ

شجاعت کا، ہمت کا یہ، کام ہے
درم ہاتھ میں ہے کہ یا دام ہے

نہ ہوتا اگر اس کو عزم شکار
درندوں سے بچتا نہ شہر و دیار

نہ بچتے جہاں بیچ خرد و بزرگ
یہ ہو جاتے سب لقمۂ شیر و گرگ

یہ انسان پر اس کا احسان ہے
کہ بے خوف انسان کی جان ہے

بنائی جہاں اس نے نخچیر گاہ
رہے صید واں آکے شام و پگاہ

رکھا صید بحری پہ جس دم خیال
لیا پشت پر اپنی ماہی نے جال

مگر اپنا دیتے ہیں جی جان کر
کہ ٹاپو پہ گرتے ہیں آن آن کر

نہ سمجھو نکلتے ہیں دریا میں سوس
خوشی سے اچھلتے ہیں دریا میں سوس

چرندوں کا دل اس طرف ہے لگا
پرندوں کو رہتی ہے اس کی ہوا

پلنگوں کا ہے بلکہ چیتا یہی
کمر آ بندھاوے ہماری وہی

کھڑے اَرنے ہوتے ہیں سر جوڑ جوڑ
کہ جی کون دیتا ہے بد بد کے ہوڑ

خبر اس کی سن کر نہ گینڈا چلے
کہ ہاتھی بھی ہو مست، اینڈا چلے

جو کچھ دل میں گینڈے کے آوے خیال
تو بھاگے اس آگے سپر اپنی ڈال

اطاعت کے حلقے سے بھاگے جو فیل
پلک، اس کی آنکھوں میں، ہو تفتہ میل

سو وہ تو اطاعت میں یک دست ہیں
نشے میں محبت کے سب مست ہیں

اسی کے لیے گو کہ ہیں وے پہاڑ
قدم اپنے رکھتے ہیں سب گاڑ گاڑ

کہ شاید مشرف سواری سے ہوں
سر افراز چل کر عماری سے ہوں

چلن جب یہ کچھ ہوویں حیوان کے
تو پھر حق بہ جانب ہے انسان کے

کسے ہو نہ صحبت کی اس کی ہوس
ولے کیا کرے، جو نہ ہو دسترس

فلک بار گاہا، ملک در گہا!
جدا میں جو قدموں سے تیرے رہا

نہ کچھ عقل نے اور نہ تدبیر نے
رکھا مجھ کو محروم تقدیر نے

پراب عقل نے میرے کھولے ہیں گوش
دیا ہے مدد سے تری مجھ کو ہوش

سو میں، اک کہانی بنا کر نئی
در فکر سے گوندھ لڑیاں کئی

لے آیا ہوں خدمت میں بہر نیاز
یہ امید ہے پھر، کہ ہوں سرفراز

مرے عذر تقصیر ہوویں قبول
بہ حق علی و بہ آل رسول

رہے جاہ و حشمت یہ تیری مدام
بہ حق محمد، علیہ السلام

رہیں شاد و آباد کل خیر خواہ
پھریں اس گھرانے کے دشمن تباہ

اب آگے کہانی کی ہے داستاں
ذرا سنیو دل دے کے اس کا بیاں

آغاز داستاں
کسی شہر میں تھا کوئی بادشاہ

کہ تھا وہ شہنشاہ گیتی پناہ
ملک خو، ملک شاہ رکھتا تھا نام

فلک پر مہ و مہر اس کے غلام
بہت حشمت و جاہ و مال و منال

بہت فوج سے اپنی فرخندہ حال
کئی بادشاہ اس کو دیتے تھے باج

خطا اور ختن سے وہ لیتا خراج
کوئی دیکھتا آ کے جب اس کی فوج

تو کہتا کہ: ہے بحر ہستی کی موج
طویلے کے اس کے جو ادنی تھے خر

انھیں نعل بندی میں ملتا تھا زر
جہاں تک کہ سرکش تھے اطراف کے

وہ اس شہ کے رہتے تھے قدموں لگے
رعیت تھی آسودہ و بے خطر

نہ غم مفلسی کا، نہ چوری کا ڈر
عجب شہر تھا اس کا مینو سواد

کہ قدرت خدائی کی آتی تھی یاد
لگے تھے ہر اک جا پہ وہاں سنگ و خشت

ہر اک کوچہ اس کا، تھا رشک بہشت
زمیں سبز و سیراب عالم تمام

نظر کو طراوت وہاں صبح و شام
کہیں چاہ و منبع، کہیں حوض و نہر

ہر اک جا پہ آب لطافت کی لہر
عمارت تھی گچ کی وہاں پیش تر

کہ گزرے صفائی سے جس پر نظر
کروں اس کی وسعت کا کیا میں بیاں

کہ جوں اصفہاں، تھا وہ نصف جہاں
ہنر مند واں اہل حرفہ تمام

ہر اک نوع کی خلق کا ازدحام
یہ دل چسپ بازار تھا چوک کا

کہ ٹھہرے جہاں، بس وہیں دل لگا
جہاں تک یہ رستے تھے بازار کے

کہے تو کہ تختے تھے گلزار کے
صفا پر جو اس کی نظر کر گئے

اسے دیکھ کر سنگ مرمر گئے
کہوں قلعے کی اس کے کیا میں شکوہ

گئے دب، بلندی کو دیکھ اس کی، کوہ
وہ دولت سرا خانۂ نور تھا

سدا عیش و عشرت سے معمور تھا
ہمیشہ خوشی، رات دن سیر باغ

نہ دیکھا کسی دل پہ، جز لالہ، داغ
سدا عیش و عشرت، سدا راگ و رنگ

نہ تھا زیست سے کوئی اپنی بہ تنگ
غنی وہاں وا، جو کہ آیا تباہ

عجب شہر تھا وہ عجب بادشاہ
نہ دیکھا کسی نے کوئی واں فقیر

ہوئے اس کی دولت سے گھر گھر امیر
کہاں تک کہوں اس کا جاہ و حشم

محل و مکاں اس کا رشک ارم
ہزاروں پری پیکر اس کے غلام

کمر بستہ خدمت میں حاضر مدام
سدا ماہ رویوں سے صحبت اسے

سدا جامہ زیبوں سے رغبت اسے
کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم

مگر ایک اولاد کا تھا الم
اسی بات کا اس کے تھا دل پہ داغ

نہ رکھتا تھا وہ اپنے گھر کا چراغ
دنوں کا عجب اس کے یہ پھیر تھا

کہ اس روشنی پہ یہ اندھیر تھا
وزیروں کو اک روز اس نے بلا

جو کچھ دل کا احوال تھا، سو کہا
کہ میں کیا کروں گا یہ مال و منال

فقیری کا ہے میرے دل کو خیال
فقیر اب نہ ہوں، تو کروں کیا علاج

نہ پیدا ہوا وارث تخت و تاج
جوانی مری ہو گئی سب بسر

نمودار پیری ہوئی سر بہ سر
دریغا کہ عہد جوانی گذشت

جوانی مگو، زندگانی گذشت
بہت ملک پر جان کھویا کیا

بہت فکر دنیا میں رویا کیا
زہے بے تمیزی و بے حاصلی

کہ از فکر دنیا، ز دیں غافلی
وزیروں نے کی عرض کہ اے آفتاب!

نہ ہو تجھ کو ذرہ کبھی اضطراب
فقیری جو کیجے تو دنیا کے ساتھ

نہیں خوب، جانا ادھر خالی ہاتھ
کرو سلطنت، لے کے اعمال نیک

کہ تا دو جہاں میں رہے حال نیک
جو عاقل ہوں، وے سوچ میں ٹک رہیں

کہ ایسا نہ ہووے کہ پھر سب کہیں
تو کار زمیں را نکو ساختی

کہ بر آسماں نیز پرداختی
یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت

فقیری میں ضائع کرو اس کو مت
عبادت سے اس کشت کو آب دو

وہاں جا کے خرمن ہی تیار لو
رکھو یاد عدل و سخاوت کی بات

کہ اس فیض سے ہے تمہاری نجات
مگر ہاں، یہ اولاد کا ہے جو غم

سو اس کا تردد بھی کرتے ہیں ہم
عجب کیا کہ ہووے تمہارے خلف

کرو تم نہ اوقات اپنی تلف
نہ لاؤ کبھی یاس کی گفتگو

کہ قرآں میں آیا ہے: لا تقنطو
بلاتے ہیں ہم اہل تنجیم کو

نصیبوں کو اپنے ذرا دیکھ لو
تسلی تو دی شاہ کو اس نمط

ولے اہل تنجیم کو بھیجے خط
نجومی و رَمّال اور برہمن

غرض یاد تھا جن کو اس ڈھب کا فن
بلا کر انہیں شہ کنے لے گئے

جوں ہی رو بہ رو شہ کے سب وے گئے
پڑا جب نظر وہ شہ تاج و تخت

دعا دی کہ ہوں شہ کے بیدار بخت
کیا قاعدے سے نہڑ کر سلام

کہا شہ نے: میں تم سے رکھتا ہوں کام
نکالو ذرا اپنی اپنی کتاب

مرا ہے سوال، اس کا لکھو جواب
نصیبوں میں دیکھو تو میرے کہیں

کسی سے بھی اولاد ہے یا نہیں
یہ سن کر، وے رمال طالع شناس

لگے کھینچنے زائچے بے قیاس
دھرے تختے آگے، لیا قرعہ ہاتھ

لگا دھیان اولاد کا اس کے ساتھ
جو پھینکیں، تو شکلیں کئی بیٹھیں مل

کئی شکل سے دل گیا ان کا کھل
جماعت نے رمال کی عرض کی

کہ ہے گھر میں امید کے کچھ خوشی
یہ سن ہم سے اے عالموں کے شفیق

بہت ہم نے تکرار کی ہر طریق
بیاض اپنی دیکھی جو اس رَمل کی

تو ایک ایک نکتہ، ہے فرد خوشی
ہے اس بات پر اجتماع تمام

کہ طالع میں فرزند ہے تیرے نام
زن و زوج کے گھر میں ہے گی فرح

پیا کر مے وصل کا تو قدح
نجومی بھی کہنے لگے در جواب

کہ ہم نے بھی دیکھی ہے اپنی کتاب
نحوست کے دن سب گئے ہیں نکل

عمل اپنا سب کر چکا ہے زحل
ستارے نے طالع کے، بدلے ہیں طور

خوشی کا کوئی دن میں آتا ہے دور
نظر کی جو تسدیس و تثلیث پر

تو دیکھا کہ ہے نیک سب کی نظر
کیا پنڈتوں نے جو اپنا بچار

تو کچھ انگلیوں پر کیا پھر شمار
جنم پترا شاہ کا دیکھ کر

تُلا اور بِرچھک پہ کر کر نظر
کہا: رام جی کی ہے تم پر دیا

چندرما سا بالک ترے ہووے گا
نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن

نہ ہو گر خوشی، تو نہ ہوں برہمن
مہاراج کے ہوں گے مقصد شتاب

کہ آیا ہے اب پانچواں آفتاب
نصیبوں نے کی آپ کے یاوری

کہ آئی ہے اب ساتویں مشتری
مقرر ترے، چاہیے، ہو پسر

کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر
وہ لیکن مقدر ہے کچھ اور بھی

کہ ہیں اس بھلے میں، برے طور بھی
یہ لڑکا تو ہو گا، ولے کیا کہیں

خطر ہے اسے بارھویں برس میں
نہ آوے یہ خورشید بالائے بام

بلندی سے خطرہ ہے اس کو تمام
نہ نکلے یہ بارہ برس رشک مہ

رہے برج میں یہ مہ چاردہ
کہا شہ نے یہ سن کے، ان کے تئیں

کہو، جی کا خطرہ تو اس کو نہیں؟
کہا: جان کی سب طرح خیر ہے

مگر دشت غربت کی کچھ سیر ہے
کوئی اس پہ عاشق ہو جن و پری

کوئی اس کی معشوق ہو استری
کچھ ایسا نکلتا ہے پوتھی میں اب

خرابی ہو اس پر کسی کے سبب
ہوئی کچھ خوشی شہ کو اور کچھ الم

کہ دنیا میں توام ہیں شادی و غم
کہا شہ نے: اس پر نہیں اعتبار

جو چاہے کرے میرا پروردگار
یہ فرما، محل میں در آمد ہوئے

منجم وہاں سے بر آمد ہوئے
خدا پر زبس اس کا تھا اعتقاد

لگا مانگنے اپنی حق سے مراد
خدا سے لگا کرنے وہ التجا

لگا آپ مسجد میں رکھنے دیا
نکالا مرادوں کا آخر سراغ

لگائی ادھر لَو، تو پایا چراغ
سحاب کرم نے کیا جو اثر

ہوئی کشت امید کی بارور
اسی سال میں، یہ تماشا سنو

رہا حمل اک زوجۂ شاہ کو
جو کچھ دل پہ گزرے تھے رنج و تعب

مبدّل ہوئے وے خوشی ساتھ سب
خوشی سے پلا مجھ کو ساقی! شراب

کوئی دم میں بجتا ہے چنگ و رباب
کروں نغمۂ تنہنیت کو شروع

کہ اک نیک اختر کرے ہے طلوع
داستان تولد ہونے کی شاہ زادہ بے نظیر کے

گئے نو مہینے جب اس پر گزر
ہوا گھر میں شہ کے تولد پسر

عجب صاحب حسن پیدا ہوا
جسے مہرومہ دیکھ شیدا ہوا

نظر کو نہ ہو حسن پر اُس کے تاب
اسے دیکھ، بے تاب ہو آفتاب

ہوا وہ جو اُس شکل سے دل پذیر
رکھا نام اس کا شہ بے نظیر

خواصوں نے، خواجہ سراؤں نے جا
کئی نذریں گزرانیاں اور کہا

مبارک تجھے اے شہ نیک بخت!
کہ پیدا ہوا وارث تاج و تخت

سکندر نژاد اور دارا حشم
فلک مرتبت اور عطارد رقم

رہے اس کے اقلیم زیر نگیں
غلامی کریں اس کی خاقان چیں

یہ سنتے ہی مژدہ، بچھا جا نماز
کیے لاکھ سجدے، کہ اے بے نیاز!

تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار
نہ ہو تجھ سے مایوس، امید دار

دوگانہ غرض شکر کا کر ادا
تہیہ کیا شاہ نے جشن کا

وے نذریں خواصوں کی، خوجوں کی لے
انہیں خلعت و زر کا انعام دے

کہا: جاؤ، جو کچھ کہ درکار ہو
کہو خانساماں سے تیار ہو

نقیبوں کو بلوا کے یہ کہ دیا
کہ نقار خانے میں دو حکم جا

کہ نوبت خوشی کی بجاویں تمام
خبر سن کے یہ شاد ہوں خاص و عام

یہ مژدہ جو پہنچا، تو نقارچی
لگا ہر جگہ بادلا اور زری

بنا ٹھاٹھ نقار خانے کا سب
مہیا کر اسباب عیش و طرب

غلاف اس پہ بانات پر زر کے ٹانک
شتابی سے نقاروں کو سینک سانک

دیا چوب کو پہلے بم سے ملا
لگی پھیلنے ہر طرف کو صدا

کہا زیر سے بم نے بہر شگوں
کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں

بجے شادیانے جو واں اس گھڑی
ہوئی گرد و پیش آ کے خلقت کھڑی

بہم مل کے بیٹھے جو شہنا نواز
بنا منہ سے پھرکی، لگا اس پہ ساز

سروں پر وے سر پیچ معمول کے
خوشی سے، ہوئے گال گل، پھول کے

لگے لینے اپجیں خوشی سے نئی
اڑانا لگا بجنے اور سگھڑئی

ٹکوروں میں نوبت کے شہنا کی دھن
سگھڑ سننے والوں کو کرتی تھی سن

ترھی اور قرنائے شادی کے دم
لگے بھرنے زیل اور کھرج میں بہم

سنی جھانجھ نے جو خوشی کی نوا
تھرکنے لگا، تالیوں کو بجا

نئے سر سے عالم کو عشرت ہوئی
کہ لڑکے کے ہونے کی نوبت ہوئی

محل سے لگا تابہ دیوان عام
عجب طرح کا اک ہوا ازدحام

چلے لے کے نذریں وزیر و امیر
لگے کھینچنے زر کے تودے فقیر

دیے شاہ نے شاہزادے کے نانو
مشائخ کو اور پیر زادوں کو گانو

امیروں کو جاگیر، لشکر کو زر
وزیروں کو الماس و لعل و گہر

خواصوں کو، خوجوں کو جوڑے دیے
پیادے جو تھے، ان کو گھوڑے دیے

خوشی سے کیا یاں تلک زر نثار
جسے ایک دینا تھا، بخشے ہزار

کیا بھانڈ اور بھکتیوں نے ہجوم
ہوئی ’’آہے آہے مبارک‘‘ کی دھوم

لگا کنچنی، چونا پزنی تمام
کہاں تک میں لوں نرت کاروں کا نام

جہاں تک کہ سازندے تھے ساز کے
دھنی دست کے اور آواز کے

جہاں تک کہ تھے گایک اور تنت کار
لگے گانے اور ناچنے ایک بار

لگے بجنے قانون و بین و رباب
بہا ہر طرف جوئے عشرت کا آب

لگی تھاپ طبلوں پہ مردنگ کی
صدا اونچی ہونے لی چنگ کی

کمانچوں کو، سارنگیوں کو بنا
خوشی سے ہر اک ان کی تربیں ملا

لگا تار پر موم مرچنگ کے
ملا سر طنبوروں کے یک رنگ کے

ستاروں کے پردے بنا کر درست
بجانے لگے سب وے چالاک و چست

گئی بائیں کی آسماں پر گمک
اٹھا گنبد چرخ سارا دھمک

خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط
لگے ناچنے اس پہ اہل نشاط

کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے
دو پانوں میں گھنگرو جھنکتے ہوئے

وہ گھٹنا، وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ
دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ

دو بالے چمکتے ہوئے کان میں
پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں

کبھی دل کو پاؤں سے مل ڈالنا
نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا

دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا
کبھی اپنی انگیا کو لینا چھپا

کسی کے وہ مکھڑے پہ نتھ کی پھبن
کسی کے چمکتے ہوئے نورتن

وہ دانتوں کی مسی، وہ گل برگ تر
شفق میں عیاں جیسے شام و سحر

وہ گرمی کے چہرے، کہ جوں آفتاب
جسے دیکھ کر دل کو ہو اضطراب

چمکنا گلوں کا صفا کے سبب
وہ گردن کے ڈورے قیامت، غضب

کبھی منہ کے تئیں پھیر لینا ادھر
کبھی چوری چوری سے کرنا نظر

دوپٹے کو کرنا کبھی منہ کی اوٹ
کہ پردے میں ہو جائیں دل لوٹ پوٹ

ہر اک تان میں ان کو ارمان یہ
کہ دل لیجئے تان کی جان یہ

کوئی فن میں سنگیت کے شعلہ رو
برم، جوگ، لچھمی کی لے، پر ملو

کوئی ڈیڑھ گت ہی میں پانوں تلے
کھڑی عاشقوں کے دلوں کو ملے

کوئی دائرے میں بجا کر پرن
کوئی ڈھمڈھمی میں دکھا اپنا فن

غرض ہر طرح دل کو لینا انہیں
نئی طرح سے داغ دینا انہیں

کبھی مار ٹھوکر، کریں قتل عام
کبھی ہاتھ اٹھا، لیویں گرتے کو تھام

کہیں دھرپت اور گیت کا شور و غل
کہیں قول و قلبانہ و نقش و گل

کہیں بھانڈ کے ولولوں کا سماں
کہیں ناچ کشمیریوں کا وہاں

منجیرا، پکھاوج، گلے ڈال ڈھول
بجاتے تھے اس جا کھڑے، باندھ غول

محل میں جو دیکھو تو اک ازدحام
مبارک سلامت کی تھی دھوم دھام

وہاں بھی تو تھی عیش و عشرت کی دھوم
پری پیکروں کا ہر اک جا ہجوم

چھٹی تک غرض تھی خوشی ہی کی بات
کہ دن عید اور رات تھی شب برات

بڑھے ابر ہی ابر میں جوں ہلال
محل میں لگا پلنے وہ نو نہال

برس گانٹھ جس سال اس کی ہوئی
دل بستگاں کی گرہ کھل گئی

وہ گل جب کہ چوتھے برس میں لگا
بڑھایا گیا دودھ اس ماہ کا

ہوئی تھی جو کچھ پہلے شادی کی دھوم
اسی طرح سے پھر ہوا وہ ہجوم

طوائف وہی اور وہی راگ و رنگ
ہوئی بلکہ دونی خوشی کی ترنگ

وہ گل پانو سے اپنے جس جا چلا
وہاں آنکھ کو نرگسوں نے ملا

لگا پھرنے وہ سرو جب پانو پانو
کیے بَردے آزاد تب اس کے نانو

داستان تیاری میں باغ کی
مے ارغوانی پلا ساقیا!

کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا
دیا شہ نے ترتیب اک خانہ باغ

ہوا رشک سے جس کے، لالے کو داغ
عمارت کی خوبی، دروں کی وہ شان

لگے جس میں زر بفت کے سا یبان
چقیں اور پردے بندھے زر نگار

دروں پر کھڑی دست بستہ بہار
کوئی دور سے در پر اٹکا ہوا

کوئی زہ پہ خوبی سے لٹکا ہوا
وہ مقیش کی ڈوریاں سر بہ سر

کہ مہ کا بندھا جس میں تار نظر
چقوں کا تماشا، تھا انکھوں کا جال

نگہ کو وہاں سے گزرنا محال
سنہری، مغرق چھتیں ساریاں

وہ دیوار اور در کی گل کاریاں
دیے چار سو آئنے جو لگا

گیا چوگنا لطف اس میں سما
وہ مخمل کا فرش اس میں ستھرا کہ بس

بڑھے جس کے آگے نہ پاے ہوس
رہیں لخلخے اس میں روشن مدام

معطر شب و روز جس سے مشام
چھپر کھٹ مرصع کا دالان میں

چمکتا تھا اس طرح ہر آن میں
زمیں پر تھی اس طور اس کی جھلک

ستاروں کی جیسے فلک پر چمک
زمیں کا کروں دھاں کی کیا میں بیا ں

کہ صندل کا اک پارچہ تھا عیاں
بنی سنگ مر مر سے چو پڑ کی نہر

گئی چارسو، اس کے پانی کی لہر
قرینے سے گرد اس کے سروسہی

کچھ اک دور دور اس سے سیب و بہی
کہوں کیا میں کیفیت دار بست

لگائے رہیں تاک وہاں مے پرست
ہواے بہاری سے گل لہلہے

چمن سارے شاداب اور ڈہڈ ہے
زمرد کی مانند سبزے کا رنگ

روش کا، جواہر ہوا جس سے سنگ
روش کی صفائی پہ بے اختیار

گل اشرفی نے کیا زر نثار
چمن سے بھرا باغ، گل سے چمن

کہیں نرگس و گل، کہیں یاسمن
چنبیلی کہیں اور کہیں موتیا

کہیں راے بیل اور کہیں موگرا
کھڑے شاخ شبو کے ہر جانشان

مدن بان کی اور ہی آن بان
کہیں ارغواں اور کہیں لالہ زار

جدی اپنے موسم میں سب کی بہار
کہیں چاندنی میں گلوں کی بہار

ہر اک گل سفیدی سے مہتاب وار
کھڑے سرو کی طرح چمپے کے جھاڑ

کہے تو کہ خوش بوئیوں کے پہاڑ
کہیں زرد نسریں، کہیں نسترن

عجب رنگ پر زعفرانی چمن
پڑی آبجو، ہر طرف کو بہے

کریں قمریاں سرو پر چہچہے
گلوں کا لب نہر پر جھومنا

اسی اپنے عالم میں منہ چومنا
وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر

نشے کا سا عالم گلستان پر
لیے بیلچے ہاتھ میں مالنے

چمن کو لگیں دیکھنے بھالنے
کہیں تخم پاشی کریں کھود کر

پنیری جماویں کہیں گود کر
کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال

رہیں ہاتھ جوں مست گردن پہ ڈال
لب جو کے آئینے میں دیکھ قد

اکڑنا کھڑے سرو کا جد نہ تد
خراماں صبا صحن میں چار سو

دماغوں کو دیتی پھرے گل کی بو
کھڑے نہر پر قاز اور قر قرے

لیے ساتھ مرغابیوں کے پرے
صدا قر قروں کی، بطوں کا وہ شور

درختوں پہ بگلے، منڈیروں پہ مور
چمن آتش گل سے دہکا ہوا

ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا
صبا جو گئی ڈھیریاں کر کے بھول

پڑے ہر طرف مونسریوں کے پھول
وہ کیلوں کی اور مونسریوں کی چھانو

لگی جائیں آنکھیں لیے جن کا نانو
خوشی سے گلوں پر سدا بلبلیں

تعشق کی آپس میں باتیں کریں
درختوں نے برگوں کے کھولے ورق

کہ لیں طوطیاں بوستاں کا سبق
سماں قمریاں دیکھ اس آن کا

بڑھیں باب پنجم گلستان کا
دوا، دائیاں اور مغلانیاں

پھریں ہر طرف اس میں جلوہ کناں
خواصوں کا اور لونڈیوں کا ہجوم

محل کی وہ چہلیں، وہ آپس کی دھوم
تکلف کے پہنے پھریں سب لباس

رہیں رات دن شاہ زادے کے پاس
کنیزان مہ رو کی ہر طرف ریل

چنبیلی کوئی اور کوئی راے بیل
شگوفہ کوئی اور کوئی کام روپ

کوئی چت لگن اور کوئی سیام روپ
کوئی کیتکی اور کوئی گلاب

کوئی مہ رتن اور کوئی ماہتاب
کوئی سیوتی اور ہنس مکھ کوئی

کوئی دل لگن اور تن سکھ کوئی
ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں

پھریں اپنے جوبن میں اتراتیاں
کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں

کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں
کہیں اپنی پٹی سنوارے کوئی

اری اور تری کہہ پکارے کوئی
بجاتی پھرے کوئی اپنے کڑے

کہیں ’’ہوئے رے‘‘ اور کہیں ’’واچھڑے‘‘
دکھاوے کوئی گو کھرو موڑ موڑ

کہیں سوت بونٹی، کہیں تار توڑ
ادا سے کوئی بیٹھی حقہ پیے

دم دوستی کوئی بھر بھر جیے
کوئی حوض میں جاکے غوطہ لگائے

کوئی نہر پر پانو بیٹھی ہلائے
کوئی اپنے توتے کی لیوے خبر

کوئی اپنی مینا پہ رکھے نظر
کسی کو کوئی دھول مارے کہیں

کوئی جان کو اپنی وارے کہیں
کوئی آرسی اپنے آگے دھرے

ادا سے کہیں بیٹھی کنگھی کرے
مقابا کوئی کھول مسی لگائے

لبوں پر دھڑی کوئی بیٹھی جمائے
ہوا ان گلوں سے دوبالا سماں

اسی باغ میں یہ بھی باغ رواں
غرض لوگ تھے یہ جو ہر کام کے

سو سب واسطے اس کے آرام کے
پلا جب وہ اس ناز و نعمت کے ساتھ

پدر اور مادر کی شفقت کے ساتھ
ہوئی اس کے مکتب کی شادی عیاں

ہوا پھر انہیں شادیوں کا سماں
معلم، اتالیق، منشی، ادیب

ہر اک فن کے استاد بیٹھے قریب
کیا قاعدے سے شروع کلام

پڑھانے لگے علم اس کو تمام
دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا

کئی برس میں علم سب پڑھ چکا
معانی و منطق، بیان و ادب

پڑھے اس نے منقول و معقول سب
خبردار حکمت کے مضمون سے

غرض جو پڑھا اس نے، قانون سے
لگا ہیئت و ہندسہ تا نجوم

زمیں آسماں میں پڑی اس کی دھوم
کیے علم نوک زباں حرف حرف

اسی نحوسے عمر کی اس نے صرف
عطارد کو اس کی لگی آنے ریس

ہوا سادہ لوحی میں وہ خوش نویس
ہوا جب کہ نو خط وہ شیریں رقم

بڑھا کر لکھے سات سے، نو قلم
لیا ہاتھ جب خامۂ مشک بار

لکھا نسخ و ریحان و خط غبار
عروس الخطوط اور ثلث و رقاع

خفی و جلی مثل خط شعاع
شکستہ لکھا اور تعلیق جب

رہے دیکھ، حیراں، اتالیق سب
کیا خط گلزار سے جب فراغ

ہوا صفحۂ قطعہ، گلزار باغ
کروں علم کو اس کے کیا میں عیاں

کروں مختصر یاں سے اب یہ بیاں
کماں کے جو درپے ہوا بے نظیر

لیا کھینچ چلے میں سب فن تیر
صفائی میں سو فار، پیکاں کیا

گیا جب کہ تودے پہ، طوفاں کیا
رکھا چھوٹتے ہی جو لکڑی پہ من

لیا اپنے قبضے میں سب اس کا فن
ہوئیں دست و بازو کی سر سائیاں

اڑائیں کئی ہاتھ میں گھائیاں
رکھا موسیقی پر بھی کچھ جو خیال

کیے قید سب اس نے ہاتھوں میں تال
طبیعت گئی کچھ جو تصویر پر

رکھے رنگ سب اس نے مد نظر
کئی دن میں سیکھا یہ کسب تفنگ

کہ حیراں ہوئے دیکھ، اہل فرنگ
سو ان کمالوں کے، کتنے کمال

مروت کی خو، آدمیت کی چال
رذالوں سے، نفروں سے نفرت اسے

غرض قابلوں ہی سے صحبت اسے
گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر

ہر اک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر
داستان سواری کی تیاری کے حکم میں

پلا ساقیا! مجھ کو اک جام مل
جوانی پر آیا ہے ایام گل

غنیمت شمر صحبت دوستاں
کہ گل پنج روز است در بوستاں

ثمر لے بھلائی کا، گر ہو سکے
شتابی سے بو لے، جو کچھ بو سکے

کہ رنگ چمن پر نہیں اعتبار
یہاں چرخ میں ہے خزان و بہار

پڑی جب گرہ بارہویں سال کی
کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی

کہا شہ نے بلوا نقیبوں کو شام
کہ ہوں صبح حاضر سبھی خاص و عام

سواری تکلف سے تیار ہو
مہیا کریں، جو کہ درکار ہو

کریں شہر کو مل کے آئینہ ہند
سواری کا ہو لطف جس سے دو چند

رعیت کے خوش ہوں صغیر و کبیر
کہ نکلے گا کل شہر میں بے نظیر

یہ فرما، محل میں گئے بادشاہ
نقیبوں نے سن حکم، لی اپنی راہ

ہوئی شب، لیا مہ نے جام شراب
گیا سجدۂ شکر میں آفتاب

خوشی سے گئی جلد جو شب گزر
ہوئی سامنے سے نمایاں سحر

عجب شب تھی وہ جوں سحر روسپید
عجب روز تھا مثل روز امید

گیا مژدۂ صبح لے ماہتاب
اٹھا سورج آنکھوں کو ملتا شتاب

کہا شاہ نے اپنے فرزند کو
کہ بابا! نہا دھو کے تیار ہو

داستان حمام کے نہانے کی لطافت میں
پلا آتشیں آب پیر مغاں!

کہ بھولے مجھے گرم و سرد جہاں
اگر چاہتا ہے مرے دل کا چین

نہ دینا وہ ساغر جو ہو قلتین
کدورت مرے دل کی دھو ساقیا

ذرا شیشئہ مے کو دھو دھا کے لا
کہ سر گرم حمام ہے بے نظیر

گیا ہے نہانے کو ماہ منیر
ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں

عرق آ گیا اس کے اندام میں
تن نازنیں نم ہوا س کا گل

کہ جس طرح ڈوبے ہے شبنم میں گل
پرستار، باندھے ہوئے لنگیاں

مہ و مہر سے طاس لے کر وہاں
لگے ملنے اس گل بدن کا بدن

ہوا ڈہڈہا آب سے وہ چمن
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک

برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
لبوں پر جو پانی پھرا سر بہ سر

نظر آئے، جیسے دو گل برگ تر
ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس

کہے تو، پڑے جیسے نرگس پہ اوس
لگا ہونے ظاہر جو اعجاز حسن

ٹپکنے لگا اس سے انداز حسن
گیا حوض میں جو شہ بے نظیر

پڑا آب میں عکس ماہ منیر
وہ گورا بدن اور بال اس کے تر

کہے تو کہ ساون کی شام و سحر
نمی کا تھا بالوں کی عالم عجب

نہ دیکھی کوئی خوب تر اس سے شب
کہوں اس کی خوبی کی کیا تجھ سے بات

کہ جوں بھیگتی جاوے صحبت میں رات
زمیں پر تھا اک موجۂ نور خیز

ہوا جب وہ فوارہ ساں آب ریز
زمرد کے لے ہاتھ میں سنگ پا

کیا خادموں نے جو آہنگ پا
ہنسا کھلکھلا وہ گل نو بہار

لیا کھینچ پانوں کو بے اختیار
عجب عالم اس نازنیں پر ہوا

اثر گد گدی کا جبیں پر ہوا
ہنسا اس ادا سے کہ سب ہنس پڑے

ہوئے جی سے قربان چھوٹے بڑے
دعائیں لگے دینے بے اختیار

کہا: خوش رکھے تجھ کو پرور دگار
کہ تیری خوشی سے، ہے سب کی خوشی

مبارک تجھے روز و شب کی خوشی!
نہ آوے کبھی تیری خاطر پہ میل

چمکتا رہے یہ فلک کا سہیل
کیا غسل جب اس لطافت کے ساتھ

اڑھا کھیس، لائے اسے ہاتھوں ہاتھ
نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح

کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح
غرض شاہ زادے کو نہلا دھلا

دیا خلعت خسروانہ پنہا
جواہر سراسر پنہایا اسے

جواہر کا دریا بنایا اسے
لڑی، لٹکن اور کلغی اور نورتن

عدد ایک سے ایک زیب بدن
مرصع کا سر پیچ جوں موج آب

مصفّا بہ شکل گل آفتاب
وہ موتی کے مالے بہ صد زیب و زین

کہیں جس کو آرام جاں، دل کا چین
جواہر کا تن پر عجب تھا ظہور

کہ ایک ایک عدد اس کا، تھا کوہ طور
غرض ہو کے اس طرح آراستہ

خراماں ہوا سرو نوخاستہ
نکل گھر سے جس دم ہوا وہ سوار

کیے خوان گوہر کے اس پر نثار
زبس تھا سواری کا باہر ہجوم

ہوا جب کہ ڈنکا، پڑی سب میں دھوم
برابر برابر کھڑے تھے سوار

ہزاروں ہی تھی ہاتھیوں کی قطار
سنہری، رپہری تھیں عماریاں

شب و روز کی سی طرح داریاں
چمکتے ہوئے بادلوں کے نشان

سواروں کے غٹ اور بھالوں کی شان
ہزاروں تھی اطراف میں پالکی

جھلا بور کی جگمگی نالکی
کہاروں کی زر بفت کی کرتیاں

اور ان کے دبے پانو کی پھرتیاں
بندھیں پگڑیاں تاش کی سر اوپر

چکا چوندھ میں جس سے آوے نظر
وہ ہاتھوں میں سونے کے موٹے کڑے

جھلک جس کی ہر ہر قدم پر پڑے
وہ ماہی مراتب، وہ تخت رواں

وہ نوبت، کہ دولھا کا جس سے سماں
وہ شہنائیوں کی صدا خوش نوا

سہانی وہ نوبت کی اس میں صدا
وہ آہستہ گھوڑوں پہ نقارچی

قدم با قدم بالباس زری
بجاتے ہوئے شادیا نے تمام

چلے آگے آگے ملے، شاد کام
سوار اور پیادے، صغیر و کبیر

جلو میں تمامی امیر و وزیر
وے نذریں کہ جس جس نے تھیں ٹھانیاں

شہ و شاہ زادے کو گزرانیاں
ہوئے حکم سے شاہ کے پھر سوار

چلے سب قرینے سے باندھے قطار
سجے اور سجائے سبھی خاص و عام

لباس زری میں ملبس تمام
طرق کے طرق اورپرے کے پرے

کچھ ایدھر ادھر، کچھ ورے، کچھ پرے
مرصع کے سازوں سے کوتل سمند

کہ خوبی میں روح الفرس سے دو چند
وہ فیلوں کی اور میگ ڈمبر کی شان

جھلکتے وہ مقیش کے سایبان
چلی پایۂ تخت کے ہو قریب

بہ دستور شاہانہ نپتی جریب
سواری کے آگے کیے اہتمام

لیے سونے روپے کے عاصے تمام
نقیب اور جلو دار اور چوبدار

یہ آپس میں کہتے تھے ہر دم پکار
اسی اپنے معمول و دستور سے

ادب سے تفاوت سے اور دور سے
یلو! نوجوانو! بڑھے جائیو

دو جانب سے باگیں لیے آئیو
بڑھے جائیں آگے سے، چلتے قدم

بڑھے عمر و دولت قدم با قدم
غرض اس طرح سے سواری چلی

کہے تو کہ باد بہاری چلی
تماشائیوں کا جدا تھا ہجوم

ہر اک طرف تھی ایک عالم کی دھوم
لگا قلعے سے شہر کی حد تلک

دکانوں پہ تھی بادلے کی جھلک
کیا تھا زبس شہر آئینہ بند

ہوا چوک کا لطف واں چار چند
منڈھے تھے تمامی سے دیوار و در

تمامی وہ تھا شہر، سونے کا گھر
رعیت کی کثرت، ہجوم سپاہ

گزرتی تھی رک رک کے ہر جانگاہ
ہوئے جمع کھوٹھوں پہ جو مردوزن

ہر اک سطح تھی جوں زمین چمن
یہ خالق کی سن قدرت کا ملہ

تماشے کو نکلی زن حاملہ
لگا لنج سے تا ضعیف و نحیف

تماشے کو نکلے وضیع و شریف
وحوشوں، طیوروں تلک بے خلل

پڑے آشیانوں سے اپنے نکل
نہ پہنچا جو اک مرغ قبلہ نما

سو وہ آشیانے میں تڑپھا کیا
زبس شاہ زادہ بہت تھا حسیں

ہوئے دیکھ عاشق کہین و مہیں
نظر جس کو آیا وہ ماہ تمام

کیا اس نے جھک جھک کے اس کو سلام
دعا شاہ کو دی کہ بار الٰہ!

سدا یہ سلامت رہے مہر و ماہ
یہ خوش اپنے مہ سے رہے شہر یار

کہ روشن رہے شہر، پروردگار!
غرض شہر سے باہر اک سمت کو

کوئی باغ تھا شہ کا، اس میں سے ہو
گھڑی چار تک خوب سی سیر کر

رعیت کو دکھلا کے اپنا پسر
اسی کثرت فوج سے ہو سوار

پھر اشہر کی طرف وہ شہر یار
سواری کو پہنچا گئی فوج، ادھر

گئے اپنی منزل میں شمس و قمر
جہاں تک کہ تھیں خادمان محل

خوشی سے وہ ڈیوڑھی تک آئیں نکل
قدم اپنے حجروں سے باہر نکال

لیا سب نے، آپیشوا، حال حال
بلائیں لگیں لینے سب ایک بار

کیا جی کو یک دست سب نے نثار
گیا جب محل میں وہ سر و رواں

بندھا ناچ اور راگ کا پھر سماں
پہر رات تک، پہنے پوشاک وہ

رہا ساتھ سب کے طرب ناک وہ
قضارا وہ شب، تھی شب چار دہ

پڑا جلوہ لیتا تھا ہر طرف مہ
نظارے سے تھا اس کے، دل کو سرور

عجب عالم نور کا تھا ظہور
عجب جوش تھا نور مہتاب کا

کہے تو کہ دریا تھا سیماب کا
ہوا شاہ زادے کا دل بے قرار

یہ دیکھی جو واں چاندنی کی بہار
کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ

کہا: آج کوٹھے پہ بچھے پلنگ
خواصوں نے جا شاہ سے عرض کی

کہ شہ زادے کی آج یوں ہے خوشی
ارادہ ہے کوٹھے پر آرام کا

کہ بھایا ہے عالم لب بام کا
کہا شہ نے: اب تو گئے دن نکل

اگر یوں ہے مرضی تو کیا ہے خلل
پر اتنا ہے، اس سے خبردار ہوں

جنھوں کی ہے چوکی، وہ بیدار ہوں
لب بام پر جب یہ سووے صنم

کریں سورۂ نور کو اس پہ دم
تمھارا مرا بول بالا رہے

یہ اس گھر کا قائم اجالا رہے
کہا تب خواصوں نے: حق سے امید

یہی ہے کہ ہم بھی رہیں رو سفید
پھریں حکم لے وہاں سے پھر شاہ کا

بچھونا کیا جا کے اس ماہ کا
قضارا وہ دن تھا اسی سال کا

غلط وہم ماضی میں تھا حال کا
سخن مولوی کا یہ سچ ہے قدیم

کہ آگے قضا کے، ہو احمق حکیم
پڑے اپنے اپنے جو سب عیش بیچ

نہ سوجھی زمانے کی کچھ اونچ نیچ
یہ جانا کہ یوں ہی رہے گا یہ دور

زمانے کا سمجھا انہوں نے نہ طور
کہ اس بے وفا کی نئی ہے ترنگ

یہ گرگٹ بدلتا ہے ہر دم میں رنگ
کرا بادۂ عیش درجام ریخت

کہ صد شام بر فرق صبحش نہ پیخت
نداری تعجب ز نیرنگ دہر

کہ آرد زیک حقہ تریاک و زہر
داستان شاہ زادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اڑا کر لے جانے کی

شتابی سے اٹھ ساقی بے خبر!
کہ چاروں طرف ماہ ہے جلوہ گر

بلوریں گلابی میں دے بھر کے جام
کہ آیا بلندی پہ ماہ تمام

جوانی کہاں اور کہاں پھر یہ سن
مثل ہےکہ ہے چاندنی چار دن

اگر مے کے دینے میں کچھ دیر ہے
تو پھر جان یہ تو کہ اندھیر ہے

وہ سونے کا جو تھا جڑاؤ پلنگ
کہ سیمیں تنوں کو ہو جس پر امنگ

کھنچی چادر ایک اس پہ شبنم کی صاف
کہ ہو چاندنی، جس صفا کی غلاف

دھرے اس پہ تکیے کئی نرم نرم
کہ مخمل کو ہو جس کے دیکھے سے شرم

کہاں تک کوئی اس کی خوبی کو پائے
جسے دیکھ، آنکھوں کو آرام آئے

کسے اس پہ کسنے وہ مقیش کے
کہ جھبوں میں تھے جس کے موتی لگے

سراسر ادقچے رزی باف کے
کہ تھے رشک آئینہ صاف کے

وہ گل تکیے اس کے جو تھے رشک ماہ
کہ ہر وجہ تھی ان کو خوبی میں راہ

کہوں اس کے گل تکیوں کا کیا بیاں
کہ بے وجہ رکھتا نہ تھا گال واں

کبھی نیند میں جب کہ ہوتا تھا وہ
تو رخسار رکھ اپنا، سوتا تھا وہ

چھپائے سے ہوتا نہ، حسن اس کا ماند
کہے تو، لگائے تھے مکھڑے پہ چاند

زبس نیند میں تھا جو وہ ہورہا
بچھونے پہ آتے ہی بس سورہا

وہ سویا جو اس آن سے بے نظیر
رہا پاسباں اس کا ماہ منیر

ہوا اس کے سونے پہ عاشق جو ماہ
لگا دی ادھر اپنی اس نے نگاہ

وہ مہ اس کے کوٹھے کا ہالا ہوا
غرض واں کا عالم دو بالا ہوا

وہ پھولوں کی خوش بو، وہ ستھرا پلنگ
جوانی کی نیند اور وہ سونے کا رنگ

جہاں تک کہ چوکی کے تھے باری دار
ہوا جو چلی، سو گئے ایک بار

غرض سب کو واں عالم خواب تھا
مگر جاگتا ایک مہتاب تھا

قضارا ہوا اک پری کا گزر
پڑی شاہ زادے پہ اس کی نظر

بھبھوکا سا دیکھا جو اس کا بدن
جلا آتش عشق سے اس کا تن

ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار
وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اتار

جو دیکھا، تو عالم عجب ہے یہاں
منور ہے سارا زمیں آسماں

دوپٹے کو اس مہ کے منہ سے اٹھا
دیا گال سے گال اپنا م

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse