ستم ہے وہ پھر بد گماں ہو رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ستم ہے وہ پھر بد گماں ہو رہا ہے
by عاشق اکبرآبادی

ستم ہے وہ پھر بد گماں ہو رہا ہے
پس امتحاں امتحاں ہو رہا ہے

خوشی کیوں نہ ہو قتل ہونے کی مجھ کو
وہ نا مہرباں مہرباں ہو رہا ہے

تصدق تجھی پر زمیں ہو رہی ہے
تجھی پر فدا آسماں ہو رہا ہے

مجھے ہچکیوں نے خبر دی ہے آ کر
مرا ذکر جو کچھ وہاں ہو رہا ہے

چلو سیر کر آئیں جنت کی عاشقؔ
عجب کچھ تماشا وہاں ہو رہا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse