ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر
by جلیل مانکپوری

ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر
ہمارے باغ ہستی میں بہار آئی خزاں ہو کر

جوانی کی دعائیں مانگی جاتی تھیں لڑکپن میں
لڑکپن کے مزے اب یاد آتے ہیں جواں ہو کر

خدا رکھے دل مایوس میں امید باقی ہے
یہی گل ہے جو بو دیتا ہے پامال خزاں ہو کر

مجھے شبنم بنا رکھا ہے ان خورشید رویوں نے
رلاتے ہیں نہاں ہو کر مٹاتے ہیں عیاں ہو کر

ہمیں وہ تھے کہ ہوتی تھی بسر پھولوں کے غنچے میں
ہمیں اب اے فلک تنکے چنیں بے آشیاں ہو کر

در جاناں کے آگے کب تحیر بڑھنے دیتا ہے
جو آتا ہے وہ رہ جاتا ہے سنگ آستاں ہو کر

نہال شمع میں کیا خوشنما اک پھول آیا تھا
ستم ڈھایا نسیم صبح نے باد خزاں ہو کر

تقاضا سن کا بھی اللہ کیا شے ہے کہ یوسف سے
زلیخا ناز کرتی ہے نئے سر سے جواں ہو کر

جلیلؔ آخر جو کی ہے شاعری کچھ کام بھی نکلے
کسی بت کو مسخر کیجیے معجز بیاں ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse