ستم ہے تیرے عاشق کے لئے بیمار ہو جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ستم ہے تیرے عاشق کے لئے بیمار ہو جانا
by جمیلہ خدا بخش

ستم ہے تیرے عاشق کے لئے بیمار ہو جانا
بڑی آفت ہے دل کے ہاتھ سے ناچار ہو جانا

بدل جانا نگاہوں کا تو دیکھا پر نہیں دیکھا
دل عاشق سے اس کا تیر بن کر پار ہو جانا

نصیحت سے وہ باز آتا نہیں تم باز آؤ گے
پہنچنا سامنے ناصح کے جب سرشار ہو جانا

کیا ہے اشک حسرت تو نے رسوا مجھ کو محفل میں
کہا کس نے کہ یوں میرے گلے کا ہار ہو جانا

اکیلے میں تصور خوب کرنا اس ستم گر کا
لحد میں خواب غفلت سے اگر بے دار ہو جانا

دل پر غم رقیب رو سیہ دیکھے نہیں تجھ کو
گلی میں اس کی جا کر سایۂ دیوار ہو جانا

نہیں فرقت گوارا طائر دل تم کو دلبر کے
پہنچتے ہی اسیر گیسوئے خم دار ہو جانا

خدا حافظ ہے اپنا دیکھیے کیسی گزرتی ہے
بڑی مشکل ہے راہ عشق کا دشوار ہو جانا

قدم بوسی میسر ہو کسی صورت سے اس بت کی
جمیلہؔ بعد مردن خاک کوئے یار ہو جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse