ستم کامیاب نے مارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ستم کامیاب نے مارا
by جگر مراد آبادی

ستم کامیاب نے مارا
کرم لا جواب نے مارا

خود ہوئی گم ہمیں بھی کھو بیٹھی
نگہ بازیاب نے مارا

زندگی تھی حجاب کے دم تک
برہمئ حجاب نے مارا

عشق کے ہر سکون آخر کو
حسن کے اضطراب نے مارا

خود نظر بن گئی حجاب نظر
ہائے اس بے حجاب نے مارا

میں ترا عکس ہوں کہ تو میرا
اس سوال و جواب نے مارا

کوئی پوچھے کہ رہ کے پہلو میں
تیر کیا اضطراب نے مارا

بچ رہا جو تری تجلی سے
اس کو تیرے حجاب نے مارا

اب نظر کو کہیں قرار نہیں
کاوش انتخاب نے مارا

سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے
اور جگرؔ کو شراب نے مارا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse