ستم ناروا کو روتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ستم ناروا کو روتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

ستم ناروا کو روتے ہیں
چرخ تیری جفا کو روتے ہیں

خون رلوا رہی ہے یاد وفا
اک سراپا وفا کو روتے ہیں

اس طرح آئی وقت سے پہلے
آنے والی قضا کو روتے ہیں

اب یہ اس تک پہنچ نہیں سکتا
نالۂ نارسا کو روتے ہیں

بہہ گیا آنکھ سے لہو ہو کر
دل درد آشنا کو روتے ہیں

جان لے کر گیا وہ آخر کار
مرض لا دوا کو روتے ہیں

جانے والے کی یہ نشانی ہے
دیکھ کر نقش پا کو روتے ہیں

درد سا درد ہے بھرا اس میں
ٹوٹے دل کی صدا کو روتے ہیں

روتے جو آئے تھے رلا کے گئے
ابتدا انتہا کو روتے ہیں

رنگ و بو اب کہاں وہ گل ہی نہیں
اس چمن کی ہوا کو روتے ہیں

ہے فضائے چمن غبار آلود
ہم مکدر فضا کو روتے ہیں

خاک میں ملنے کو ہے سب کا حسن
گل رنگیں قبا کو روتے ہیں

مہندی پس کر لہو رلاتی ہے
پسنے والی حنا کو روتے ہیں

نفس سرد یہ بنی بھی تو کیا
موج باد صبا کو روتے ہیں

باغ عالم میں اس طرح بے دید
نرگس نیم وا کو روتے ہیں

چھا گئی کیسی تیرگی ان پر
مہر و مہ کی ضیا کو روتے ہیں

کام آیا نہ یہ کسی کے بھی
خضر آب بقا کو روتے ہیں

چپ ہیں یوں جیسے ان میں جان نہیں
لب معجزنما کو روتے ہیں

اب سوئے آسماں نہیں اٹھتا
اپنے دست دعا کو روتے ہیں

جان کو لے کے ساتھ جانا تھا
اس دل مبتلا کو روتے ہیں

دے گیا داغ غم یہ کون ریاضؔ
ہم غم دیر پا کو روتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse