ستم ایجاد کے انداز ستم تو دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ستم ایجاد کے انداز ستم تو دیکھو‏
by داغ دہلوی

ستم ایجاد کے انداز ستم تو دیکھو
امتحاں عشق و ہوس کا یہ نیا رکھا ہے
ہر گھڑی عاشق مضطر سے وہ ملتی ہے شبیہ
نقشہ بگڑی ہوئی صورت کا بنا رکھا ہے
شکوۂ ہجر سے اے داغؔ اثر کی امید
آپ نے نام شکایت کا دعا رکھا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse