سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں
by بخش ناسخ

سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں
ہم سر زلف گرہ گیر لیے پھرتے ہیں

کون تھا صید وفادار کہ اب تک صیاد
بال و پر اس کے ترے تیر لیے پھرتے ہیں

تو جو آئے تو شب تار نہیں یاں ہر سو
مشعلیں نالۂ شب گیر لیے پھرتے ہیں

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

معتکف گرچہ بظاہر ہوں تصور میں مگر
کو بہ کو ساتھ یہ بے پیر لیے پھرتے ہیں

رنگ خوبان جہاں دیکھتے ہی زرد کیا
آپ زور آنکھوں میں اکسیر لیے پھرتے ہیں

جو ہے مرتا ہے بھلا کس کو عداوت ہوگی
آپ کیوں ہاتھ میں شمشیر لیے پھرتے ہیں

سرکشی شمع کی لگتی نہیں گر ان کو بری
لوگ کیوں بزم میں گل گیر لیے پھرتے ہیں

تا گنہ گاری میں ہم کو کوئی مطعوں نہ کرے
ہاتھ میں نامۂ تقدیر لیے پھرتے ہیں

قصر تن کو یوں ہی بنوا یہ بگولے ناسخؔ
خوب ہی نقشۂ تعمیر لیے پھرتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.