سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں
by عابد علی عابد

سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں
وہ نہ جانے کدھر سے گزرے ہیں

موج آواز پائے یار کے ساتھ
نغمے دیوار و در سے گزرے ہیں

آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں
آج دل کے نگر سے گزرے ہیں

گھر کے گوشے میں تھے کہیں پنہاں
جتنے سیلاب گھر سے گزرے ہیں

زلف کے خم ہوں یا جہان کے غم
مر مٹے ہم جدھر سے گزرے ہیں

صدف تہ نشیں بھی کانپ گیا
کیسے طوفان سر سے گزرے ہیں

باغ شاداب موج گل ہی نہیں
سیل خوں بھی ادھر سے گزرے ہیں

جب چڑھی ہے کماں کہیں عابدؔ
تیرے میرے جگر سے گزرے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse