سب کو ہے منظور اس رخسار گل گوں کی طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب کو ہے منظور اس رخسار گل گوں کی طرف
by میر حسن دہلوی

سب کو ہے منظور اس رخسار گل گوں کی طرف
دیکھتا ہے کون میری چشم پر خوں کی طرف

ساتھ ناقہ کے خدا جانے کدھر رم کر گئی
گرد محمل بھی نہ پہنچی آہ مجنوں کی طرف

جان و دل میں بے طرح بگڑی ہے تیرے عشق میں
کیجیے دل کی طرف یا جان محزوں کی طرف

زلف و رخ ہے روز و شب کیا دیکھتے رہتے ہو تم
منصفی سے ٹک تو دیکھو اپنے مفتوں کی طرف

خضر تک کیجو مدد تو بھی کہ تا بھولے نہ راہ
ناقۂ لیلیٰ چلا ہے آج مجنوں کی طرف

گرچہ ہیں تیری ہی گردش سے نگہ کی ہم خراب
پر اشارہ اس کا کر دیتے ہیں گردوں کی طرف

کیونکہ آوے چین تیرے وحشیوں کو بعد مرگ
خاک ہو کر جب تلک جاویں نہ ہاموں کی طرف

نام میں بھی ہے عیاں عاشق کی آشفتہ سری
دیکھتے تو ہو گے اکثر بید مجنوں کی طرف

بسکہ اس کی زلف کے آشفتہ ہیں ہم اے حسنؔ
شعر میں بھی دھیان ہے پیچیدہ مضموں کی طرف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse