سب کو الجھائے ہوئے ہے زلف پیچاں ان دنوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب کو الجھائے ہوئے ہے زلف پیچاں ان دنوں  (1934) 
by ابراہیم عاجز

سب کو الجھائے ہوئے ہے زلف پیچاں ان دنوں
کون سنتا ہے مرا حال پریشاں ان دنوں

ہو رہا ہوں محو دید روئے جاناں ان دنوں
کیوں نہ ہوں پھر صورت آئینہ حیراں ان دنوں

مصحف رخ نور افشانی سے بیضاوی ہوا
ہو گئے کیا متحد تفسیر و قرآں ان دنوں

صاحت دل آئنہ ہے اور آنکھیں دوربیں
کیوں نظر آتا نہیں پھر روئے جاناں ان دنوں

رات دن گوشے میں کب تک عشق لیلائے جمال
بن کے مجنوں کیجئے سیر بیاباں ان دنوں

اب سکندر پور رشک خطہ شیراز ہے
لائے ہیں تشریف استاد سخنداں ان دنوں

لکھنؤ کی شاعری منسوخ ہے اس دور میں
رشک ناسخؔ ہے ہر اک طفل‌ دبستاں ان دنوں

شاعران دہر کو اب ہے پریشانی نصیب
کرتے ہیں استاد اکمل جمع دیواں ان دنوں

اک جگہ رہنے نہیں دیتی زمانے کی ہوا
ہو رہا ہوں مثل اوراق پریشاں ان دنوں

رات دن عاجزؔ نوازی ان کو اب منظور ہے
کیوں نہ ہو پھر بستۂ زنجیر احساں ان دنوں

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse