سب پہ تو مہربان ہے پیارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب پہ تو مہربان ہے پیارے
by جگر مراد آبادی

سب پہ تو مہربان ہے پیارے
کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے

آ کہ تجھ بن بہت دنوں سے یہ دل
ایک سونا مکان ہے پیارے

تو جہاں ناز سے قدم رکھ دے
وہ زمین آسمان ہے پیارے

مختصر ہے یہ شوق کی روداد
ہر نفس داستان ہے پیارے

اپنے جی میں ذرا تو کر انصاف
کب سے نامہربان ہے پیارے

صبر ٹوٹے ہوئے دلوں کا نہ لے
تو یوں ہی دھان پان ہے پیارے

ہم سے جو ہو سکا سو کر گزرے
اب ترا امتحان ہے پیارے

مجھ میں تجھ میں تو کوئی فرق نہیں
عشق کیوں درمیان ہے پیارے

کیا کہے حال دل غریب جگرؔ
ٹوٹی پھوٹی زبان ہے پیارے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse