سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے
by نظیر اکبر آبادی

سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے
یاں اور کسی کی نہ منی ہے نہ منا ہے

بالفرض اگر ہم ہوے حوا کے شکم سے
آدم کے تئیں دیکھیے وہ کس کا جنا ہے

یاں لوگ دولہن دولہا کے قصے میں پھنسے ہیں
واں اور بنت ہے نہ بنی ہے نہ بنا ہے

حکمت کا الٹ پھیر نہیں جن کی نظر میں
وہ کہتے ہیں غافل یہ بقا ہے یہ فنا ہے

لے عرش سے تا فرش جو روشن ہے طلسمات
یہ نور سب اس نور کی چھلنی سے چھنا ہے

ہم کچے سے کچا اسے سمجھے ہیں وگرنہ
اس دیگ کے چاول میں کنی ہے نہ کنا ہے

ملنا بھی غرض کا ہے لڑائی بھی غرض کی
نہیں اور کسی سے کوئی روٹھا نہ منا ہے

حاجت نہ بر آئی تو وہیں کرنے لگے ہجو
اور ہو گیا مطلب تو ہیں وصف و ثنا ہے

یابس کہیں مرطوب کہیں گرم کہیں سرد
مصری میں کہیں زہر ہلاہل میں سنا ہے

ایک اس کی دوا سمجھی نہیں جاتی نظیرؔ آہ
کچھ زور ہی معجون کا نسخہ یہ بنا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse