سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آ رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آ رہے
by میر حسن دہلوی

سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آ رہے
کار جہاں تمام کمینے پہ آ رہے

آگے جو دلبری تھی سو عاشق کشی ہے اب
جو کام مہر کے تھے سو کینے پہ آ رہے

غصے میں جوش مارا جو دریائے حسن نے
جلوے نزاکتوں کے پسینے پہ آ رہے

ڈرتا ہے دل کہ اس پہ ترقی نہ ہو کہیں
ملنے کے وقت اب تو مہینے پہ آ رہے

تو کچھ نہ بولے اور مزہ ہو کہ میرا ہاتھ
کاندھے سے تیرے مستی میں سینے پہ آ رہے

دریائے دل کی موج سے خطرہ ہے چشم کو
مت یہ کہیں اچھل کے سفینے پہ آ رہے

پولی تلے گزر گئی لاکھوں کی عمر اب
گنبد میں کوئی کون سے جینے پہ آ رہے

جن کا دماغ عرش پہ تھا اب ہیں پائمال
کوٹھے پہ جو کہ رہتے تھے زینے پہ آ رہے

گنج نہاں سے دل کے تو واقف ہوے نہ ہم
کیا فائدہ جو زر کے دفینے پہ آ رہے

دو دن کے چاؤ چوز حسنؔ کے وہ ہو چکے
پھر رفتہ رفتہ اپنے قرینے پہ آ رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse