سب میں ہوں پھر کسی سے سروکار بھی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب میں ہوں پھر کسی سے سروکار بھی نہیں  (1900) 
by حبیب موسوی

سب میں ہوں پھر کسی سے سروکار بھی نہیں
غافل اگر نہیں ہوں تو ہشیار بھی نہیں

قیمت اگر وہ دیتے ہیں تکرار بھی نہیں
کچھ ہم کو دل کے دینے میں انکار بھی نہیں

نسبت ہے جسم و روح کی اللہ رے اتحاد
سبحہ اگر نہیں ہے تو زنار بھی نہیں

بیٹھا ہوں اس کی یاد میں بھولا ہوں غیر کو
زاہد اگر نہیں ہوں ریاکار بھی نہیں

جائیں وہ قتل غیر کو ہم رشک سے مریں
ایسی تو اپنی جان سے بیزار بھی نہیں

آنا ہو آؤ ورنہ یہ کہہ دو نہ آئیں گے
سن لو یہ دو ہی باتیں ہیں طومار بھی نہیں

سودا تمام ہو گیا بازار اٹھ گیا
وہ دل بھی اب نہیں وہ خریدار بھی نہیں

طرز جفا بھی بھول گئی کیا وفا کے ساتھ
دل دار گر نہیں ہو دل آزار بھی نہیں

لیں گے ہزار در سے پلٹ کر در مراد
منعم نہ دیں تو کیا تری سرکار بھی نہیں

بھیجیں گے حسب حال انہیں گو نہ لکھ سکیں
کیا دامن اور دیدۂ خوں بار بھی نہیں

بلبل چمن کو دیکھ خزاں کے ستم کو دیکھ
گل کا تو ذکر کیا ہے کہیں خار بھی نہیں

آزاد ہیں شراب کے عادی نہیں حبیبؔ
احباب گر پلائیں تو انکار بھی نہیں

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse