سب ماسوائے عشق فریب سراب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب ماسوائے عشق فریب سراب ہے
by سراج الدین ظفر

سب ماسوائے عشق فریب سراب ہے
میں بھی ہوں خواب میری جوانی بھی خواب ہے

ہے بوئے گل کہیں کہیں رنگ شراب ہے
ہر چیز میں شریک کسی کا شباب ہے

میری نظر سوال ہے اور برملا سوال
ان کی نظر جواب ہے اور لا جواب ہے

دل کارزار عشق و وفا میں ہے پیش پیش
طوفاں کے سامنے ہے اگرچہ حباب ہے

شمع جمال دوست کی اف رے تجلیاں
کونین ایک دائرہ التہاب ہے

وہ حسن انتخاب جہاں ہے اگر تو ہو
میری بھی دو جہاں میں نظر انتخاب ہے

آزاد دو جہاں ہوں سلامت غرور عشق
اب میری بے خودی بھی خودی کا جواب ہے

عرفان دل نہیں تجھے اے شکوہ سنج دوست
اس آئنے میں راز شہود و حجاب ہے

اک حسن بے نیاز جہاں تھا وہیں رہا
ورنہ ہر انقلاب کے بعد انقلاب ہے

دنیائے عشق دیر نہیں ہے حرم نہیں
یہ سرزمیں ورائے جہان خراب ہے

طوفاں کی ٹھوکروں میں ہمیشہ سے ہوں ظفرؔ
وہ شمع ہوں ہواؤں میں جو شعلہ تاب ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse