سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
by داغ دہلوی

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں
ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں

میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا
وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں

کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت
دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں

ہے مجمع اغیار کہ ہنگامۂ محشر
کیا سیر مرے دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں

اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا
اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں

ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت
ہم کوئی دن اس کو بھی مگر دیکھ رہے ہیں

آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے
کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں

تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی
حیرت زدہ سب اہل نظر دیکھ رہے ہیں

نیرنگ ہے ایک ایک ترا دید کے قابل
ہم اے فلک شعبدہ گر دیکھ رہے ہیں

کب تک ہے تمہارا سخن تلخ گوارا
اس زہر میں کتنا ہے اثر دیکھ رہے ہیں

کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا
کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

اب تک تو جو قسمت نے دکھایا وہی دیکھا
آئندہ ہو کیا نفع و ضرر دیکھ رہے ہیں

پہلے تو سنا کرتے تھے عاشق کی مصیبت
اب آنکھ سے وہ آٹھ پہر دیکھ رہے ہیں

کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ
اللہ دکھاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں

خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے
اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں

پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے
ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں

میں داغؔ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو
منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse