سب شریک صدمہ و آزار کچھ یوں ہی سے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب شریک صدمہ و آزار کچھ یوں ہی سے ہیں
by مضطر خیرآبادی

سب شریک صدمہ و آزار کچھ یوں ہی سے ہیں
یار کچھ یوں ہی سے ہیں غم خوار کچھ یوں ہی سے ہیں

ان کے سب افعال سب اطوار کچھ یوں ہی سے ہیں
قول کچھ یوں ہی سے ہیں اقرار کچھ یوں ہی سے ہیں

اپنے دیوانے سے مل لیجے اسی میں خیر ہے
آپ ابھی رسوا سر بازار کچھ یوں ہی سے ہیں

جس جگہ دیکھو نصیحت کے لیے موجود ہیں
حضرت ناصح خدائی خوار کچھ یوں ہی سے ہیں

دست وحشت نے گریباں کا صفایا کر دیا
جیب کے پردے میں تھوڑے تار کچھ یوں ہی سے ہیں

ان کے آنے کی خبر سن کر اڑا دی ہے خبر
ورنہ مضطرؔ واقعی بیمار کچھ یوں ہی سے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse