سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود
by بہادر شاہ ظفر

سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود
غافل تو ذرا دیکھ وہ ہر آن ہے موجود

ہر تار کا دامن کے مرے کر کے تبرک
سربستہ ہر اک خار بیابان ہے موجود

عریانی تن ہے یہ بہ از خلعت شاہی
ہم کو یہ ترے عشق میں سامان ہے موجود

کس طرح لگاوے کوئی داماں کو ترے ہاتھ
ہونے کو تو اب دست و گریبان ہے موجود

لیتا ہی رہا رات ترے رخ کی بلائیں
تو پوچھ لے یہ زلف پریشان ہے موجود

تم چشم حقیقت سے اگر آپ کو دیکھو
آئینۂ حق میں دل انسان ہے موجود

کہتا ہے ظفرؔ ہیں یہ سخن آگے سبھوں کے
جو کوئی یہاں صاحب عرفان ہے موجود

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse