سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا
by مصطفٰی خان شیفتہ

سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا
مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا

تھا کیا ہجوم بہرِ زیارت ہزار کا
گل ہو گیا چراغ ہمارے مزار کا

جور و جفا بھی غیر پر اے یارِ دل شکن
کچھ بھی خیال ہے دلِ امیدوار کا

کھلنے لگے ہیں از سرِ نو غنچہائے زخم
یہ فیض ہے صبا کے دمِ مشک بار کا

گر چاہتے ہو جامہ نہ ہو چاک ناصحو
منگوا دو پیرہن مجھے اس گل عذار کا

ہر کوچہ میں کھلی ہے جو دکانِ مے فروش
کیا فصل ہے شراب کی، موسم بہار کا؟

گھبرا کے اور غیر کے پہلو سے لگ گئے
دیکھا اثر یہ نالۂ بے اختیار کا

وہ آتے آتے غیر کے کہنے سے تھم گئے
اب کیا کروں علاج دلِ بے قرار کا

آزاد ہے عذابِ دو عالم سے شیفتہ
جو ہے اسیر سلسلۂ تاب دار کا!

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse