سب حسینوں میں وہ پیارا خوب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سب حسینوں میں وہ پیارا خوب ہے
by امداد علی بحر

سب حسینوں میں وہ پیارا خوب ہے
ایک چہرہ جسم سارا خوب ہے

ایسے مکھڑے کی بلائیں لیجیے
بھولا بھولا پیارا پیارا خوب ہے

میری محفل میں کبھی آتے نہیں
غیر کے گھر میں گزارا خوب ہے

دونوں آنکھیں قاتل عشاق ہیں
لشکر مژگاں صف آرا خوب ہے

چرخ پر تم کو چڑھا کر دیکھیے
کون سا تاروں میں تارا خوب ہے

تم جو آئے جسم میں جان آ گئی
جان میں پیرا تمہارا خوب ہے

پاس اپنے ہو اگر تصویر یار
زندگانی کا سہارا خوب ہے

کیوں ملیں ہم آپ سے چوری چھپے
بات جو ہے آشکارا خوب ہے

تو کہا میں نے تو آزردہ ہوئے
غیر کی گالی گوارا خوب ہے

چاند سے بڑھتی ہے آنکھوں کی ضیا
خوب روؤں کا نظارا خوب ہے

دوستوں سے انحراف اچھا نہیں
دشمنوں سے بھی مدارا خوب ہے

مانگ بالوں میں ہی کیا ہے آب دار
ڈوب مرنے کو یہ دھارا خوب ہے

آبرو جاتی رہے گی آپ کی
بحرؔ اب اس سے کنارا خوب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse