سبھی انداز حسن پیارے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
by جگر مراد آبادی

سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں

اس کی راتوں کا انتقام نہ پوچھ
جس نے ہنس ہنس کے دن گزارے ہیں

اے سہاروں کی زندگی والو
کتنے انسان بے سہارے ہیں

لالہ و گل سے تجھ کو کیا نسبت
نا مکمل سے استعارے ہیں

ہم تو اب ڈوب کر ہی ابھریں گے
وہ رہیں شاد جو کنارے ہیں

شب فرقت بھی جگمگا اٹھی
اشک غم ہیں کہ ماہ پارے ہیں

آتش عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں

وہ ہمیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نے
گیسوئے زندگی سنوارے ہیں

حسن کی بے نیازیوں پہ نہ جا
بے اشارے بھی کچھ اشارے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse