سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
by داغ دہلوی

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

ہم نکمے ہوئے زمانے کے
کام ایسا سکھا دیا تو نے

کچھ تعلق رہا نہ دنیا سے
شغل ایسا بتا دیا تو نے

کس خوشی کی خبر سنا کے مجھے
غم کا پتلا بنا دیا تو نے

کیا بتاؤں کہ کیا لیا میں نے
کیا کہوں میں کی کیا دیا تو نے

بے طلب جو ملا ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا دیا تو نے

عمر جاوید خضر کو بخشی
آب حیواں پلا دیا تو نے

نار نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا دیا تو نے

دست موسیٰ میں فیض بخشش ہے
نور و لوح و عصا دیا تو نے

صبح موج نسیم گلشن کو
نفس جاں فزا دیا تو نے

شب تیرہ میں شمع روشن کو
نور خورشید کا دیا تو نے

نغمہ بلبل کو رنگ و بو گل کو
دلکش و خوش نما دیا تو نے

کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے

تھا مرا منہ نہ قابل لبیک
کعبہ مجھ کو دکھا دیا تو نے

جس قدر میں نے تجھ سے خواہش کی
اس سے مجھ کو سوا دیا تو نے

رہبر خضر و ہادی الیاس
مجھ کو وہ رہنما دیا تو نے

مٹ گئے دل سے نقش باطل سب
نقشہ اپنا جما دیا تو نے

ہے یہی راہ منزل مقصود
خوب رستے لگا دیا تو نے

مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے

داغؔ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse