سبزہ تمہارے رخ کے لئے تنگ ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سبزہ تمہارے رخ کے لئے تنگ ہو گیا
by منیرؔ شکوہ آبادی

سبزہ تمہارے رخ کے لئے تنگ ہو گیا
طوطی کا عکس آئنے میں زنگ ہو گیا

پست و بلند دہر میں کھاتا ہوں ٹھوکریں
ایسا سمند عمر رواں لنگ ہو گیا

بسمل کو بھی تڑپنے کی ملتی نہیں جگہ
کیا عرصئہ حیات جہاں تنگ ہو گیا

ہم زاد سے بھی یہ تن لاغر ہوا سبک
تولا تو اپنے سایہ کا پاسنگ ہو گیا

جوش جنوں نے جسم کے پرزے اڑا دئیے
رخت برہنگی بھی مجھے تنگ ہو گیا

اس بت سے جسم زار جو لپٹا شب وصال
عالم کو احتمال رگ سنگ ہو گیا

مضمون آہ گرم نے جلوہ دکھا دیا
اڑ کر ہوا میں نامہ مرا چنگ ہو گیا

نالے کئے تصور گیسو میں رات بھر
دل ہم صفیر مرغ شب آہنگ ہو گیا

سر کٹ کے گر پڑا اسی قاتل کے پاؤں پر
جلاد سے ملاپ دم جنگ ہو گیا

اڑ اڑ کے میرے چہرہ پر اے شوخ رہ گیا
مرغ شکستہ بال مرا رنگ ہو گیا

کرتا رہا لغات کی تحقیق عمر بھر
اعمال نامہ نسخۂ فرہنگ ہو گیا

منہ تک بھی ضعف سے نہیں آ سکتی دل کی بات
دروازہ گھر سے سیکڑوں فرسنگ ہو گیا

محروم ہوں میں خدمت استاد سے منیرؔ
کلکتہ مجھ کو گور سے بھی تنگ ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse