سبزہ بالائے ذقن دشمن ہے خلق اللہ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سبزہ بالائے ذقن دشمن ہے خلق اللہ کا
by حیدر علی آتش

سبزہ بالائے ذقن دشمن ہے خلق اللہ کا
رہروؤں کی موت ہے خس پوش ہونا چاہ کا

مل بٹھانا ہے فلک منظور کس دل خواہ کا
برج میزان میں نہیں بے وجہ آنا ماہ کا

بس کہ پھرتا ہے خیال آنکھوں میں اس دل خواہ کا
رنگ رو کے اڑنے میں عالم ہے گرد راہ کا

صفحۂ دل سے اٹھاؤں کس طرح نقش صنم
ملک میں ہوتا کسی کے گھر نہیں اللہ کا

کم بضاعت سے خیال خام ہے کثرت کو فیض
اکتفا کرتا نہیں لشکر کو پانی چاہ کا

راہ ہستی میں ہے رخسار صنم سے زندگی
تازہ دم کرتا مسافر کو ہے تکیہ راہ کا

لاش بھی گلیوں میں کھنچوا کر کیا ہے قتل یار
طول ہی دینا مزا ہے قصۂ کوتاہ کا

پست فطرت سے سوائے رنج کچھ حاصل نہیں
پا بہ گل کشتی کو کر دیتا ہے پانی تھاہ کا

چھوڑ کر عشق صنم زاہد نہ ہو مفتون حور
کب یقیں لاتا ہے دانا دور کی افواہ کا

دل کو ابروئے صنم کا شیفتہ کرتی ہے آنکھ
درس دیتا ہے معلم پہلے بسم اللہ کا

اے صنم بندہ نوازی ہے صفت اللہ کی
حیف ہے خالی پھرے سائل تری درگاہ کا

مائل معشوقۂ خسرو نہ ہو اے کوہ کن
شیر کے جھوٹے کو کھانا کام ہے روباہ کا

جوش اشک آتشیں کا باعث آہ سرد ہے
گرم کرتی ہے ہوا جاڑے کی پانی چاہ کا

نزع میں آیا نہ بالیں پر مرے یار اس لیے
آخر ہر ماہ ہے معمول چھپنا ماہ کا

ہوں وہ ابتر طفل جس کو جان کھونا کھیل ہے
کنج مرقد ہے گھروندا میری بازی گاہ کا

آسماں روئے زمیں ہے یار ماہ چار دہ
حلقۂ احباب گرد اس کے ہے ہالہ ماہ کا

وہ دہن ہے چشمۂ شیریں تبسم موج ہے
وہ ذقن ہے چاہ خال اس میں توا ہے چاہ کا

ناتواں میری طرح سے ہے جو عشق حسن سے
کوہ سے بھاری ترازو میں ہو پلہ کاہ کا

شعر کہتا ہوں میں اے آتشؔ خدا کی حمد میں
میری ہر اک بیت پر عالم ہے بیت اللہ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse