سبحہ سے مطلب نہ کچھ زنار سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سبحہ سے مطلب نہ کچھ زنار سے
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

سبحہ سے مطلب نہ کچھ زنار سے
ہیں جدا ہم کافر و دیں دار سے

عشق ہے اس ابروئے خم دار سے
کاٹوں گا اک دن گلا تلوار سے

دل مرا اٹکا ہے چشم یار سے
ہے محبت مردم بیمار سے

یوں عوض لوں جی میں ہے اغیار سے
گھر جلا دوں آہ آتش بار سے

ہیں عیاں کچھ عشق کے آثار سے
شعلے اٹھتے ہیں دل افگار سے

کیوں نہ دل اپنا نزار و زار ہو
کچھ نظر آتے ہو تم بیزار سے

رشک سے دل میں نہ کیوں جل جائے شمع
لو نکلتی ہے ترے رخسار سے

ہجر میں ہو کیوں نہ لذت وصل کی
ہے مزا انکار میں اقرار سے

کوچۂ کاکل میں کھو کر نقد دل
مول سودا لائے ہم بازار سے

جھانکے روزن سے جو تجھ کو رخنہ گر
پھوڑ ڈالوں سر کو میں دیوار سے

جان آفت میں پڑی ہے اے طبیب
موت بہتر ہجر کے آزار سے

ہر قدم پر شور محشر ہے بپا
پستے ہیں دل آپ کی رفتار سے

خضر لا کر دیں اگر آب بقا
میں نہ بدلوں شربت دیدار سے

تیغ ابرو کا جو بوسہ دے تو دے
ورنہ ظالم قتل کر تلوار سے

خلعت عریانی اور جاگیر دشت
ہم نے پایا عشق کی سرکار سے

سرو کے چہرہ کمر سینہ کہاں
اس کو کیا تشبیہ قد یار سے

ہجر میں جنگل سے ہے گلشن سوا
گل بھی مجھ کو کم نہیں ہیں خار سے

جائے آسائش نہیں ہے دوسری
بڑھ کے تیرے سایۂ دیوار سے

روز تنہائی میں رہتی ہے یہاں
گفتگو پہروں خیال یار سے

زلف و عارض چشم و ابرو خال و خط
دل نہیں بچتا انہیں دو چار سے

بوسہ اب قند مکرر ہو گیا
دونی لذت ہو گئی تکرار سے

شرط میں بوسوں کی بھی کیا لطف ہے
جیت میں کم تر مزا ہے ہار سے

ایک گل رو پر ہوا دل داغ داغ
پھول لائے آج ہم گل زار سے

کوئی میکش پھر نہ بیٹھا ایک دم
میں جو اٹھا خانۂ خمار سے

بلبلیں اس رشک گل کے ہجر میں
نوچتی ہیں اپنے پر منقار سے

سحرؔ بھیجیں گے غزل یہ یار کو
شوق ہے اس کو مرے اشعار سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse