سبب کیا پوچھتے ہو عشق کی آشفتہ حالی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سبب کیا پوچھتے ہو عشق کی آشفتہ حالی کا
by عشق اورنگ آبادی

سبب کیا پوچھتے ہو عشق کی آشفتہ حالی کا
دوانہ ہے کسو دلبر کی وضع لاوبالی کا

بھرا ہے شہد کانوں میں سماعت کی حلاوت سے
کہوں کیا ذائقہ شیریں دہن کی خوش مقالی کا

تری آنکھوں کے آگے رو کے آہ سرد بھرتا ہوں
کہ نت ہے ذوق مستوں کو ہوائے برشگالی کا

دل بے تاب جیوں سیماب حسرت سے تڑپتا ہے
ادا سے جب لہکتا ہیگا موتی اس کی بالی کا

کیا ہوں عشق میں تعریف اس مہ رو کے ابرو کی
ہر اک مصرع ہے میرا رشک دیوان ہلالی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse