سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا
سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا
کیا مرتبہ بلند ہو اپنے مزار کا
وہ دشت ہولناک وہ حب وطن کا جوش
پھر پھر کے دیکھنا وہ کسی بے دیار کا
لو دے رہی ہے شام سے آج آہ آتشیں
شعلہ بھڑک رہا ہے دل داغ دار کا
تصویر نزع دیکھنا چاہو تو دیکھ لو
رہ رہ کے جھلملانا چراغ مزار کا
پر تولنے لگے پھر اسیران بدنصیب
شاید قریب آ گیا موسم بہار کا
موئے سفید کانپتے ہاتھ اور جام مے
دکھلا رہے ہیں رنگ خزاں میں بہار کا
انگڑائیوں کے ساتھ کہیں دم نکل نہ جائے
آساں نہیں ہے رنج اٹھانا خمار کا
ساقی گرا نہ دیجیو یہ جام آخری
دل ٹوٹ جائے گا کسی امیدوار کا
مستوں کی روحیں بھٹکیں گی اچھا نہیں ہے اب
گھرگھر کے آنا قبروں پر ابر بہار کا
دیکھو تو اپنے وحشیوں کی جامہ زیبیاں
اللہ رے حسن پیرہن تار تار کا
جرم گزشتہ عفو کن و ماجرا مپرس
مارا ہوا ہوں اس دل بے اختیار کا
دنیا سے یاسؔ جانے کو جی چاہتا نہیں
اللہ رے حسن گلشن ناپائیدار کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |