Jump to content

سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا

From Wikisource
سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا
by یاس یگانہ چنگیزی
300342سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کایاس یگانہ چنگیزی

سایہ اگر نصیب ہو دیوار یار کا
کیا مرتبہ بلند ہو اپنے مزار کا

وہ دشت ہولناک وہ حب وطن کا جوش
پھر پھر کے دیکھنا وہ کسی بے دیار کا

لو دے رہی ہے شام سے آج آہ آتشیں
شعلہ بھڑک رہا ہے دل داغ دار کا

تصویر نزع دیکھنا چاہو تو دیکھ لو
رہ رہ کے جھلملانا چراغ مزار کا

پر تولنے لگے پھر اسیران بدنصیب
شاید قریب آ گیا موسم بہار کا

موئے سفید کانپتے ہاتھ اور جام مے
دکھلا رہے ہیں رنگ خزاں میں بہار کا

انگڑائیوں کے ساتھ کہیں دم نکل نہ جائے
آساں نہیں ہے رنج اٹھانا خمار کا

ساقی گرا نہ دیجیو یہ جام آخری
دل ٹوٹ جائے گا کسی امیدوار کا

مستوں کی روحیں بھٹکیں گی اچھا نہیں ہے اب
گھرگھر کے آنا قبروں پر ابر بہار کا

دیکھو تو اپنے وحشیوں کی جامہ زیبیاں
اللہ رے حسن پیرہن تار تار کا

جرم گزشتہ عفو کن و ماجرا مپرس
مارا ہوا ہوں اس دل بے اختیار کا

دنیا سے یاسؔ جانے کو جی چاہتا نہیں
اللہ رے حسن گلشن ناپائیدار کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.