سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
by اکبر الہ آبادی

سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
یہ نہ سمجھیں کہ آہ کرتا ہوں

بحر ہستی میں ہوں مثال حباب
مٹ ہی جاتا ہوں جب ابھرتا ہوں

اتنی آزادی بھی غنیمت ہے
سانس لیتا ہوں بات کرتا ہوں

شیخ صاحب خدا سے ڈرتے ہوں
میں تو انگریزوں ہی سے ڈرتا ہوں

آپ کیا پوچھتے ہیں میرا مزاج
شکر اللہ کا ہے مرتا ہوں

یہ بڑا عیب مجھ میں ہے اکبرؔ
دل میں جو آئے کہہ گزرتا ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.